Skip to main content

Qaid Day

تقسیم سے پہلے  ہندوستان کے تمام مسلمان ہندوستان کو ہی اپنا دیس مانتے تھے دو قومی نظریہ ابھی جنم نہں لیاتھا,
 جب  قاٸدِ آعظم نے کانگرینس  میں شمولیت اختیار کی اور چند سال کےعرصےمیں  ہندوٶں کو قریب سےجانا تو قاٸد پر ان کی حقیقت کھلی کہ یہ جو سیکولرازم کا راگ الاپتے ہیں یہ محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں ان کے قول اور فعل میں بے انتہا تضاد ہے انہیں اپنے دھرم کے آگے کوٸ دوسرا برداشت نہیں اور ابھی تو انگریز ہندوستان پر قابض تھے تو ان کا یہ حال ہے تو  انکےجانے کے بعد ان کی تنگ نظری کے ساتھ مسلمان کیسے گزارا کریں گے ۔ انگریزوں کے آنے سےپہلے اقتدار مسلمان کے پاس تھا تومسلمان محفوظ تھا لیکن جب یہ اقتدار انگریز ہندوٶں کو دے کےجاٸیں گے تو وہ مسلمانوں  کا کیا حشر کریں گے ,  کیوں کہ ہندوٶں کو جاننے کے بعد ان کے بارے میں آپ کی راۓ کچھ یہ تھی, آپ کے الفاظ کہ ”ہندو ایک ناقابلِ اصلاح اور نا قابلِ اعتبار قوم ہے“ آج ساری دنیا پر ان کی یہ ہی اصلیت عیاں ہے۔ آج انہوں نے اپنےملک میں رہنے والی اقلیتوں کا کیا حال کردیا یہ دنیاکے سامنے ہے۔
جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جناح صاحب نے مسلمانوں کی بھلاٸ دیکھتے ہوۓ دوقومی نظریے کی بھرپور حمایت کی اور مسلمانوں میں یہ شعور اجاگر کیا کہ الگ وطن میں ہی ہماری بقا ہے ۔ ان تمام معملات میں قاٸد اور ان کے ساتھیوں کو پیش آنے والےمساٸل اورمصاٸب سے ہم سب آگاہ ہیں یہاں کہنے کامقصد یہ ہے کہ اس وقت پر  ہندوٶں کی اصلیت جاننے کے بعد مسلمانوں کے لیۓ جو الگ وطن کے حصول کی خاطر جناح صاحب کی انتھک محنت اور  ناقابلِ بیان کاوشیں تھیں,  آج  ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر ہم پاکستانی اِس پر قاٸدِاعظم  کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ بہ حکمِ الہی آپ نےہمیں وہ چھت دی جس کے چھن جانے کے خوف سے ہم آزاد ہیں اور یہ وہ چھت ہے جو سب کو سایا دینے کے لیۓ بنی ہے رنگ, نسل, ذات, پات, اقلیت, اکثریت کے فرق سے بالاتر  اور مذہب کی 
تفریق کیۓ بغیر


١٩  دسمبر ٢٠١٩ شہریت ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد کے ہندوستان کے حالات دیکھنے کے بعد پاکستان کی سرزمین پر رہنے والے اللّہ کے بعد قاٸداعظم کے شکر گار ہیں کہ  ہمیں ہندوستان سے علیحدہ ہمارا اپنا  وطن دلایا۔
  اس وقت ہندوٶں کی فطرت جاننے کے بعد  قاٸد نےہندوٶں کے بارے میں جو کہا آج ہندو حرف بہ حرف اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور قاٸد کے ان کے بارے میں الفاظ کی ذندہ جاوید حقیقت بنے ہیں ہم پاکستان کے حامی مسلمان تو اس وقت بھی  قاٸد کی الگ وطن کے مطالبے کے ساتھ تھے لیکن جو بد قسمت اس وقت آپ کی مخالفت کر کے ہندوٶں کے دھوکے میں رھے آج  وقت نے ثابت کردیا کہ انھوں نے کتنے 
گھاٹے کاسودا کیا۔


اس حقیقت سے انکارنہیں کے ہمیں پاکستان میں لاکھ مساٸل درپیش ہیں,  لاکھ خامیاں ہیں , بہت سی تبدیلی اور بہتری ابھی درکار ہے, لیکن یہاں آزادانہ طریقے سے رہنے کے لیۓ  ہمیں اپنے باپ دادا کے شجرے نہیں کھنگالنے پڑیں گے یہ گھنا درخت ہمیں سایا دینے کو ایسے بھی تیار ہے , ہمارے بڑے غدر کے وقت ہجرت کر کے آۓ ہوۓ ہیں یاں 14 اگست 1947 کے وقت کے آۓ ہوۓ ہیں یہ وطن ہمیں پورا یہ حق دیتا ہے کہ  ہم سب  اس کو اپنا دیس مانتےہیں اور ہمیں یہاں قدم قدم پر کسی پر اِس ملّت سےوفاداری کے ثبوت نہیں دینے پڑتے۔ اس ملک سے عوام کی محبت ہی یہ ثبوت کافی ہے ۔ یہ ملک مسلمانوں کا جتنا ہے اتنا ہی غیر مسلم اقلیتوں کا بھی ہے اس کی مثال  آج دنیا کے سامنے ہے عیساٸ آج اپنا مذہبی تہوار ہر طرح کی آذادی سے منا رہے ہیں اور ہمیشہ ایسے ہی مناتے آرہے ہیں۔
اِس وقت بھارت میں آج کا مسلمان بے بسی کی تصویر بنا ہے جو کل تک پاکستان کے وجود کو مذاق کا نشانہ بناتے رہے آج ہندوٶں نے ان کا وجود مذاق بنا کر رکھ دیا وہاں,  یہ جو ظلم کی داستان شروع ہو چکی ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے گی ہندو آگے مذید ان کے لیۓ اپنی زمین تنگ کرتے رہیں گے۔ 




اس پاک سرزمین کےبننے میں لاکھوں بے گناہ انسانی جانوں کا خون شامل ہے لاکھوں افراد کی قربانیاں بھی شامل ہیں کتنے لوگوں نے اپنے جمے جماۓ کاروبار چھوڑ دیے اپنی نوکریاں,  پھرےپرے گھر بار کھیت کھلیان  اپنی املاک سب اس ملک میں آکر آباد ہونے کی خواہش کی خاطر پیچھے چھوڑ دیں,  تقسیم کے وقت مہاجرین نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا قاٸد کے پیچھے اس ملک میں آکر آباد ہونےکو فوقیت دی  اور پیچھے مڑ کر کبھی افسوس نہ کیا, کتنی ماٶں نے اپنے لال قربان کیۓ بہنوں نےبھاٸ اس پاک سر زمین پر وار دیۓ۔ کٸ انسانی جانوں کا خون بہا , عزتیں پامال ہوٸیں تب جا کر یہ ملک نصیب ہوا۔ پاکستان  کے مختلف علاقوں میں آ کر بسنے والوں کی تعداد کروڑ کے قریب تھی,  اللّہ نے ہندوستان کے مقابل اس سات گناھ چھوٹی زمین پر یہاں پہلے سے رہنے والوں کے ساتھ ساتھ  نۓ آنے والوں  کے رزق کا بندوبست بھی اس پاک دھرتی پر کیا  تو وہ کیا آپ کے لیۓ نہ کرتا؟
 تمھارا بھی بندوبست ہوجاتا آج تم لوگوں کو کیمپوں میں نہیں دھّکے  کھانے پڑتے آج تم اپنے بڑوں کے غلط فیصلوں کی سزا بھگتنےکے ساتھ ساتھ اپنی خود کی بے غیرتیوں پر بھی پچھتا رہے ہو کہ کن کے چکروں مں پڑ کر اتنا عرصہ گزار دیا اور اپنے قدم مضبوط نہ کر سکے ۔
اللّہ پاک قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ”  انسان اپنی جانوں پر خود ظلم کرتا ہے“ آپ بھی اس کی ایک مثال ہی لگتے ہیں۔ 
ہندو نہ آپ کوکبھی ہندوستان کا باشندہ مانا نہ ماننے کو تیار ہوگا۔
 آج ان کی پالیسیز نے, آپکی پہچان کو تماشہ بنا دیا  آپ نے تو ان سے وفا داری نبھانے کے لیۓ کشمیر کی پاک دھرتی کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے تک سے دریغ نہ کیا آپ کی یہ ساری کاوشیں بھی راٸیگاں رہیں۔ قاٸدِ اعظم  نے جو کہا ان کے بارے میں آج حرف بہ حرف درست ثابت ہوا ,
ادھر رہنے کو فوقیت دینے والے مسلمانوں کو
قاٸدِ اعظم نے کہا تھا کہ یہاں رہنے کےلیۓ تمہیں اپنی ساری زندگی ہندوٶں پراپنی وفاداری ثابت کرنی پڑے گی جسے قبول وہ پھر بھی کسی صورت نہیں کریں گے۔ 




آج بھارت میں بلخصوص مسلمانوں کی
حالتِ زار دیکھ کر اے قاٸد آپ کی دور اندیشی کو سلام کہ ہندوٶں کے ناپاک عزاٸم کوقبل از وقت سمجھ کر  نہ صرف الگ وطن کا شعور جگایا بلکہ اس پاک سرزمین کے قیام کو ممکن بنایا۔  یہ قوم آپ کا یہ احسان کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔

پاکستان پاٸندہ آباد

عروج بنتِ مسعود






Comments

  1. Itni achi Urdu zuban ap ne apne mazmoon mai use ki,Jo k ajkal kam hi daikhne mai aati hai.really good effort .aur Jo ap ki research hai mojooda tenazir mai WO bilkul 100% right hai.MashAllah

    ReplyDelete
  2. Very well written.. mgr ye ghltian tou in k badon ne kin hoskta hy k kuch log is badhal zindgi se pareshan Hun or niklna chahtay Hun mgr ab kiun k wo apni sari zindgi k sarmaye wahan lga chukay hyn tou unko koi Surat nzr nh ati hogi or agr wo yahan aa b jayen tou Kia Pakistan mei unko shehriat ba asani mil jaegi???

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ میرے لیۓ کہنا آسان ہوگا کہ یہاں آجاٸیں۔
      کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ صورتِحال سبق حاصل کرنے والی ہے۔ اب اِن بھارتی مسلمانوں کا تو اللّہ ہی مالک ہے۔ خدا ان کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے
      آمین

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...