Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2021

Happy Fantastic Tea Day

   آج چاۓ کا ذاٸقہ بڑا Fantastic    محسوس ہوا    😁😁😜  By the way ہمارے ہاں کچھ سقراط بقراط پاۓ جاتے ہیں جن کو آج کے دِن کےحوالے سے خوشی کا اظہار کرنے پر انسانیت کے حقوق یاد آجاتے ہیں۔  یقین جانیے اور یقین رکھیے کہ  آپ کے لیے بھارت کے پاس انسانیت کا الف بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود دیکھ لیجیے ہماری فوج کا اخلاق ابھی نندن کی اپنی زبانی دنیا نے سنا ۔ اس کو مارنے والے شہریوں کو روکنے والے ہاتھ وردی میں ملبوس  تھے آپ نے نہیں دیکھے تھے؟ ہمارے ہاں ایسے انسانیت کے علمبردار بھی آپ کو یہ گیت گاتے نظر آٸیں گے کہ وہ ایک سپاہی تھا کس بھی ملک کا کیوں نہ ہو اس کی اولاد ہرٹ ہوگی اس کا مذاق مت بناٶ  اس کے خلاف پوسٹس نہ شیٸر کرو وغیرہ وغیرہ 😏😏 آپ کو کیا لگتا ہے؟  وہ یہاں فٹ بل کھیلنے آیا تھا؟؟ جی جناب وہ یہاں ہمارے بچے ہی ہِٹ کرنے آیا تھا یہاں کا امن تباہ کرنے آیا تھا۔ آپ کے ساتھ گِلّی ڈنڈہ کھیلنے نہیں آیا تھا۔ جی بالکل  یقین کیجیے ہمیں پروا نہیں دشمن کے سپاہی کی اس کی عزت کی یاں اسکی بے عزتی کی۔ ہمیں وفا اپنے ملک سے نبھانی ہے ہمیں اپنی پاک فوج کے ایک ایک سپاہی کی اس ملک و قوم کے لیے دی جانے وال

گورکھ دھندہ پارٹ ٢

پارٹ۔٢ پچھلی تحریر میں بات ہورہی تھی کہ کس طرح ہم نے غیر ضروری ریتی رواج قاٸم کر کے شادی کے لیے  رشتہ کی  تلاش کے مرحلے کو  کس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے۔  اس ہی حوالے سے آگے بات کرتے ہیں کہ یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ  کنوارے/ کنواری  طلاق یافتہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اور طلاق یافتہ بچوں والی کو قبول کرنے سے انکاری۔۔۔ بچوں والے  مرد کو اپنے سابقہ بیوی سے پیدا ہوۓ بچے پلوانے کے لیے  بِنا بچوں والی ایک عورت چاہیے ۔ اگر تمھارے چار پل رہے ہیں تو اس بیچاری کے دو پالتے کیوں کم ظرفی آڑے آجاتی ہے؟ اکیلی طلاق یافتہ لڑکی ہے تو اس کو بنا بچوں والا مرد چاہیے۔ طلاق یافتہ مرد ہے تو موصوف کو بھی کنواری چاہیے۔ یہ صرف منافقت ہے کہ میری مجبوری, مجبوری اور دوسرے کی مجبوری اس کا عیب۔۔۔۔ اور کوٸ کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ اس  ساری جنگ میں مذہب کہاں ہے ؟ یہ کسی کو یاد نہیں۔۔۔۔ ایک اور ایشو سنیں۔۔ داڈھی والے لڑکے کو پردے والی قبول ہے لیکن اس کی ماں کو  قبول نہیں ہے  کیوں کہ اس کو ڈر ہے کہ پردہ کرے گی تو  مہمان داری نہیں نبھاۓ گی۔ اور کہیں بیٹے کو لے کر الگ نہ ہوجاۓ ۔ اف خدایاں(الہامی م

گورکھ دھندہ

آج کے معاشرے میں مانو شادی کرنے سے زیادہ مشکل اور کوٸی کام نہیں۔  رشتہ سے لے کر شادی تک کے سفر کو پیچیدہ کر رکھا ہے۔  فرسودہ رسومات کو فرض کا درجہ دیا ہوا ہے۔ انسان نے ان رسومات میں خود کو الجھایا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں عجب نرالے اصول بنا لیے ہیں ۔ اپنی مرضی کے اصول ضوابط طے کر کے خود کو ان کے شکنجے میں پھنسایا ہوا ہے۔ جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ جڑ پکڑتے جارہے ہیں۔ جن کا فاٸدہ تو نہ ہونے کے برابر ہےہاں مگر نقصان خوب ہے۔ پہلے تو  جناب لڑکے والے بدنام تھے  کہ جہیز لیتے ہیں, ڈیمانذ کرتے ہیں۔ آج دیکھا جاۓ تو لڑکی والوں نےتو ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ فرماٸشوں کی لسٹ ہےایک  طویل ترین۔۔۔ پوش ایریا میں رہاٸش سیلری 6 digit   اپنی کار چھوٹی فیملی ۔۔۔ MbA BBA MBBS  😪😪 رشتوں کے معیار اتنے بلند کہ مانو پہنچ سے ہی باہر  ۔۔ ایک وقت تھا کہ بیٹی کے لیے آنے والے رشتوں کو واقعی دِل سے عزت دی جاتی تھی لیکن جناب اب نٸے دور کے نٸے اور پیچدہ تقاضے ہیں ۔ وقت بدل گیا ہے۔ وقت کے تقاضےبھی نرالےبنالیے گۓ ہیں۔ آپشنز بے بہا کے ہیں ۔ تو نہیں کوٸ اور سہی کوٸ اور نہیں تو کوٸی اور ہی سہی۔ دیکھا جاٸے تو آج ہمارے

مجھے ہے حکمِ اذاں

 اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں  لا الہ الا اللہ علامہ اقبالؒ کی شاعری اپنے آپ میں سیکھ اور فکر کا سمندر رکھتی ہے ایک چھوٹے سے جملے میں جیسے کہ پوری کتاب  سماٸی ہے۔ ان دو جملوں کے ذریعے کس خوبصورتی سے انھوں نے ہمیں فلاح کا درس دیا۔ لا الہ الا اللہ ایک گواہی ہے سچاٸ ہے  حقیقت ہے حق و صداقت کی صدا ہے ”اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں“ آپ کومعلوم ہو کہ آپ کے آس پاس حق  سننے والا کوٸ بھی نہیں ہے, آپ کی جماعت جھوٹوں فریبوں اور  منافقوں سے بھری ہے جن کی آستینوں میں بت ہیں اور  وہ حق کے راستے سے بھی بھٹکے ہوٸے ہیں  ایسے میں بھی آپ کو حکم سچ اور حق کی اذاں بلند کرنے کا ہی ہے۔ اپنی جماعت اپنے اردگرد کیا اور کیسا ہے یہ  نہیں دیکھنا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ حق اور سچ کیا ہے اور بنا جھٹلاۓ جانے کے ڈر سے اور مخالفت کے خوف کے کلمہء حق کہنا ہے۔ ہر حالت میں حق کے ساتھ ڈٹ کر رہنا ہے ۔ سنن نساٸ شریف کی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ  کون سا جہاد افضل ہےآپ نے فرمایا ظالم حکمران کےسامنے حق بات کہنا۔  حق بات پر ڈٹے رہو چاہے وہ تمھارے نفس کے مخالف !!ہی کیوں