Skip to main content

گورکھ دھندہ پارٹ ٢



www.bolkelabazadhain.com


پارٹ۔٢

پچھلی تحریر میں بات ہورہی تھی کہ کس طرح ہم نے غیر ضروری ریتی رواج قاٸم کر کے شادی کے لیے  رشتہ کی  تلاش کے مرحلے کو  کس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے۔

 اس ہی حوالے سے آگے بات کرتے ہیں کہ

یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ

 کنوارے/ کنواری  طلاق یافتہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

اور طلاق یافتہ بچوں والی کو قبول کرنے سے انکاری۔۔۔

بچوں والے  مرد کو اپنے سابقہ بیوی سے پیدا ہوۓ بچے پلوانے کے لیے  بِنا بچوں والی ایک عورت چاہیے ۔

اگر تمھارے چار پل رہے ہیں تو اس بیچاری کے دو پالتے کیوں کم ظرفی آڑے آجاتی ہے؟

اکیلی طلاق یافتہ لڑکی ہے تو اس کو بنا بچوں والا مرد چاہیے۔

طلاق یافتہ مرد ہے تو موصوف کو بھی کنواری چاہیے۔

یہ صرف منافقت ہے کہ میری مجبوری, مجبوری اور دوسرے کی مجبوری اس کا عیب۔۔۔۔

اور کوٸ کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔

اس  ساری جنگ میں مذہب کہاں ہے ؟

یہ کسی کو یاد نہیں۔۔۔۔

ایک اور ایشو سنیں۔۔

داڈھی والے لڑکے کو پردے والی قبول ہے

لیکن اس کی ماں کو  قبول نہیں ہے

 کیوں کہ اس کو ڈر ہے کہ پردہ کرے گی تو  مہمان داری نہیں نبھاۓ گی۔

اور کہیں بیٹے کو لے کر الگ نہ ہوجاۓ ۔

اف خدایاں(الہامی ماٸیں)

ایک اورجنگ جو اس ساری باگ دوڑ میں چِھڑی ہوتی ہے

گوری بہو اور گوری بیوی۔۔۔

جی ہاں ہمارے معاشرے کی برسا برس پرانی خواہش جو کہ آج بھی اس ہی آب وتاب سے  زندہ ہے۔۔۔

لڑکی سب کو گوری ہی چاہیے۔

خوب صورت چاہیے

حسین چاہیے

پتلی چاہیے

لمبی چاہیے 

جیسے  بیاہ کے گھر کے جالے جھڑوانے کے لیے لے جا رہے ہیں😜

رشتہ دیکھنے کے لیے یہ بھی ایک معیار سیٹ کیے رکھا ہے ہمارے ہاں لوگوں نے۔

انسان کی کوالٹیز یا قابلیت کو دیکھے اور پرکھے بنا ہم صرف گوری چمڑی یا ظاہری نظر آنے والی شان و شوکت اور چمک دمک پر ہی مر مٹتے ہیں ۔

ہم یہ نہیں  سوچتے کہ بہ ظاہر نظر آنے والی شخصیت کے پیچھے بھی ایک کردار ہوگا ,اخلاق ہے,  خوبیاں ہیں , قابلیت ہے۔

ہم صرف رنگ دیکھ کر انتخاب کرنے کی جلد بازی میں نہ جانے  خوبیوں کی پیکر شخصیت کو کھو دیتے ہیں ۔

یاں ظاہری نظر آنے والی بنگلہ گاڑی اچھی نوکری وغیرہ دیکھ کر اس کو اپنی اولاد کے لیےبہتر تصور کرلیتے ہیں۔

 اور دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اپنا گھر ,بنگلہ 

گاڑی ,چھ ہندسوں والی سیلری,  ڈگری , چھوٹی فیملی بس یہ ہی رہ گیا ہے۔

اس سب میں اللہ پر توکّل کہاں گیا ؟؟؟

اس کے علاوہ تو جیسے کچھ ضروری ہے ہی نہیں۔

جس کا اپنا گھر  نہیں وہ بیٹھا انتظار کرتا رہے اچھے رشتے کا۔

تیس پینتس ہزار تنخوا والے کو بیٹی دینے کو کوٸ راضی نہیں

جس کے پاس ڈگری نہیں اسکی شرافت نیک نامی پارساٸ اور اس کے ہنر کی کوٸی حیثیت نہیں کیوں؟

کیوں کہ جی اس کے پاس ڈگری نہیں ہے

 Skills بھلے ایک اچھی نوکری یاں کوٸ کار آمد 

 ہوں سب بیکار ہیں۔

ہم نے آج شادی کے لیے خود کو جن جھمیلوں میں الجھا لیا ہے یقین جانیے کہ اس سے ہم نے صرف خود کو مشکل میں  ڈال رکھا ہے۔


ہمارے مذہب نے یہ قیود ہرگز نہیں لگاٸیں۔ چودہ سال پہلے ہی ذات پات رنگ نسل کے فرق سے آزاد کردیا تھا انساں کو۔

 مگر انسان ہے جو کہ  ان رسمی پابندیوں میں خود کو قید کیے بیھٹا ہے۔


شادی کے لیے اسٹینڈرز کو  اتنا ہاٸی کرلیتے ہیں کہ جب بعد میں وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو شادی کاانجام طلاق پر ختم ہوتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے معاشرے میں طلاق کی شرع اتنی تیزی سے بڑھنے کی۔ذات پات کے فرق میں الجھے لوگوں کو دیکھ کرخیال آتا ہے دو باتوں کا

ایک تو یہ کہ بہ حیثیت مسلمان ہم سب سے  افضل  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں اور تمام قبیلوں میں  اعلی اور افضل ہمارے نبی کا قبیلہ تھا ”بنو ہاشم“ اس خاندان کی شان سے ہم میں سے کسی کو انکار نہیں لیکن انھوں نے دوسرے قباٸل کی بیٹی لی بھی اور اپنے قبیلے کے باہر اپنی شہزایاں بیاہیں بھی۔

اس سے زیادہ کیا لکھوں قلم ساتھ نہیں دے رہا۔

جو کامل تھے  جو افضل تھے جو اعلی حسب نسب کے مالک تھے لیکن اِس سب پر زرّہ برابر بھی غرور نہیں تھا جو نبیوں کی آل میں سے تھے جو کہ ایک نبی؏ کی مانگی ہوٸی دعا تھے 

وہ نکاح کے معاملے میں اس فرق کو ختم کر چکے اور اپنے خاندان سے باہر بیٹی بھی دی اور لی بھی,  اور خاندان میں دی بھی۔

تو ہم کیوں اس فرق کے آگے خود کو پابند کرلیتے ہیں؟ 

اور ہم جن کو  اپنی پچھلی دو یاں تین نسل سے  زیادہ اپنا شجرہِ نسب بھی ٹھیک طرح سے نہیں معلوم ہم اپنی ذات اپنی زبان اور اپنے نسب پر فخر کیے دوسری ذات سے اپنی ذات کو معتبر سمجھے بیٹھے ہیں۔

 منافقت نے اس معاشرے کے ہر معاملے میں اپنی جڑ پکڑی ہوٸ ہے۔

صرف حسب نسب ہی انسان کو افضل بناتے ہیں؟ 

تو انسان کا اپنا ذاتی کردار , اخلاق کہاں گیا؟ 

آج ہم نے ان بے جا اور بے بنیاد بیڑیوں سے خود کو آزاد نہ کیا تو یقین جانیے اپنی اولاد کو براٸی کے کنویں میں پھینکنے والے ہم خود ہوں گے,ان کے مستقبل کو تابناک بنانے کا بیڑہ ہمارے ہی سر ہوگا۔

اس معاملے پر 

!! زرا نہیں پورا سوچیۓ




Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...