Skip to main content







ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔

ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔



 دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔ 

ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔

ٹوہ لگائے رکھنا

اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔



ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔ 

آج کل لوگ 

Mental health

Mental peace

کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں

یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔

دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے

Mental health Day

منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔

بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرمادی ہے کہ دین کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے اپنے دنیاوی معاملات ہم نے کیسے ادا کرنے ہیں۔

ایک دوسرے کے ساتھ کن طریقوں سے رہنا ہے۔

اللہ تعالی نے حقوق اللہ میں معافی رکھی ہے لیکن حقوق العباد کے معاملے میں اللہ نے معافی کا اختیار اپنے بندے کو دیا ہے کہ جس کے ساتھ آپ نے کسی قسم کی زیادتی سر انجام دی ہے معافی کا تقاضہ بھی اس ہی سے کیا جائے گا۔

اس بات کے کہنے کا مقصد اس معاملے کی نزاکت کا اندازہ کروانا ہے کہ روز مرہ کے معالات میں ہمیں ایک دوسروں کے ساتھ کتنا محتاط رہنے کی ضروت ہے۔


ہمارا دین ہمیں  سختی سے منع کرتا ہے کہ 

 کہ دوسروں کے بارے میں تجسس میں نہ پڑو

کسی کی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔

کسی کو  نہ ستاؤ

کسی پر الزام بہتان مت باندھو۔

کسی  کی عیب جوئی مت کرو

کسی کی کردار کشی نہ کرو

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مت پڑو

اگر کسی میں کوئی بُرائی دیکھ بھی لو تو اُس کو آگے مت پھیلاؤ

مگر ہمارے ہاں ہم دوسروں  کے معاملے میں لاؤڈ اسپیکر کا کردار نبھاتے ہیں۔ اپنے لیے ہم یہ  سب کبھی نہیں چاہیں گے لیکن دوسرے کے ساتھ یہ معاملات بڑھ چڑھ کر کرنا چاہیں گے۔

دوسروں کی ٹوہ لگانا ہی تجسس ہے اور اِس کے کئ اسباب ہیں۔

تجسس کا سب سے بنیادی سبب بغض و کینہ ہے۔ جب آپ کا دل کسی کے لیے بغض سے بھرا ہوگا آپ کواُس کا ہر سیدھا کام بھی الٹا دکھائی دے گا اور یوں آپ کی نظر اُس انسان کے صرف و صرف عیوب پر ہی رہے گی۔


تجسس کی دوسری اہم وجہ حسد ہے ۔ جس سے حسد کیا جائے حاسد کو کبھی بھی اُس شخص کی تعریف خوبیاں عزت افزائی برداشت نہیں ہوتی بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہر اچھائی اور بھلائی اُس سے چِھن جائے۔ کوئی اُسے اچھا نہ کہے۔

کسی دوسرے انسان کے بارے میں تجسس لگانا اور اُس کے مخفی عیب کھوجنا شرعاََ ممنوع ہے۔

تجسس کی ایک اور اہم وجہ دوسروں کی چاپلوسی کرنا ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ کسی بڑے کی چاپلوسی کرکے یاں پیسے والے یاں کسی بڑے عہدے دار کی چاپلوسی کر کے عزت ، رتبہ یاں کوئی مقام حاصل کرلے گا اسلیے دوسروں کی چغلیاں لگا کر چاپلوسی کرنے میں اپنا فائدہ اور عزت جانتا ہے۔ لیکن کسی سے کسی کی  خغلیاں لگا کر چاپلوسی کے ذریعے ملی عزت دیر پا نہیں ہوتی ایسی عزت ایک نہ ایک دن خاک میں لازمی ملتی ہے۔


المیہ یہ ہے کہ تانکا جھانکی کرنا ٹوہ لگاکر رکھنا  ان چیزوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں۔ 

حالانکہ کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ اُس کی زندگی پر کوئی کیمرے کی طرح فِٹ رہے۔

دوسروں کے گھروں کے معاملے میں تجسس میں لگے رہنا یہ تمام کام انسان کی اخلاقی پستی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

آج کل  لوگوں نے بالخصوص عورتوں نے یہ رواج بنا لیا ہے کہ خاندان اور پڑوس کے ہر گھر کی خبر رکھنا چاہتی ہیں جن باتوں سے اِن کا کوئی لینا نہیں پھر بھی معلومات میں اضافے کے لیے  اور حسد کے  سبب دوسروں کی باتیں جاننا  اپنے اوپر لازم کرلیتے ہیں۔ 

اور اکثر اوقات آس پڑوس میں

ٹوہ لینا اور آنے جانے والوں پر نظر رکھنا ۔

 جھگڑے فساد کا باث بننا۔ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اُس میں اپنی مرضی کی جھوٹی کہانیوں کی ملاوٹ کرنا۔

ایک دوسرے میں لڑائی پھوٹ ڈلوانے کے لیے ہر حد سے گزرنا ہمارے معاشرے میں یہ باطنی بیماریاں شدید جڑ پکڑتی جا رہی ہیں۔ 

جنھیں ان بیماریوں کی عادت ہے اُن کی وجہ سے لڑائی

 جھگڑے زور پکڑتے ہیں۔ کبھی نہ ختم ہونے والی نفرتیں جنم لیتی ہیں۔

زرا سوچیے

آپ میں یہ عادات ہیں تو ان سے پیچھا چھڑا کر اپنے کردار اور روح کو پاک کریں۔

دوسروں کے معاملات میں پڑنے کے بجائے ایک تسبیح الحمد لله  یاں استغفار کی کرلیا کریں۔ لگائی بجھائی کے بجائے اپنی اولاد کی تربیت پر وقت صرف کریں کوئی مثبت مشغلہ اپنا لیں اُس پر  اپنا دھیان لگائیں بجائے اِن باطنی بیماریوں  سے اپنی روح کو گھائل کرنے کے۔اور دوسروں کا بھی سکون و چین خراب کرنے کے۔

جھوٹ پھیلانے اور فساد کو بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالنے سے خود کو بچائیں ۔


کیوں کہ جھوٹ کتنا ہی بھلا کیوں نہ لگ رہا ہو اِس کے آشکار ہونے کا ایک وقت ضرور ہوتا ہے۔

یقین جانیے ان حرکتوں کے طفیل کنبے کے کنبے اجڑ جاتے ہیں۔ لڑائی فساد بڑھتا رہتا ہے۔ 

اسی طرح ہمارے آس پاس موجود افراد بظاہر آپ سے ہمدردی جتا کر  میاں بیوی میں  بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات جھگڑا بڑھنے سے نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔ ایسے شیطانی عناصر سے خود کو اور اپنے گھرانے کو محفوظ بنانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ 

کیوں کہ میاں بیوی میں  لڑائی خالصتاََ شیطانی عمل ہے اس عمل سے صرف شیطان خوش ہوتا ہے اگر آپ کو اس عمل سے تقویت مل رہی ہے تو برائے مہربانی اپنا محاسبہ کیجیے۔ 

شیطان کے ساتھی مت بنیں۔


ایک دوسرے کا ذہنی سکون برباد نہ کریں

آپ کی یہ چھوٹی چھوٹی حرکات دوسرے کے لیے تکلیف اور نقصان  کا باعث ہوسکتی ہیں اور آپ کے لیے صرف و صرف  گناہ کا سبب ہوں گی کیوں کہ کسی بھی طرح اور کسی بھی نیت سے شر اور فساد کا حصہ بن کر آپ  اس گناہ  سے بچ نہیں سکتے۔چاہے جتنا مرضی آپ اپنا دامن بچالیں۔

اپنی سوچوں کو دوسروں کے خلاف سازشوں سے پاک رکھیں

اپنے دل کو دوسرں کے خلاف بغض کینہ حسد  سے پاک رکھیں

زندگی بہت مختصر ہے اس کو نفرتوں کی بھینٹ چڑھا کر ایک دوسرے کے لیے جینا محال مت کریں۔ 



اور اگر کوئی آپ کا جینا محال کر رہا ہے تو ایسے زہر آلود افراد کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیجیئے۔

اس ہی میں آپ اور آپ کے گھر کی بھلائی ہے۔


کسی کے لیے کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو بُرا بھی مت کریں۔

اِس بارے میں زرا نہیں پورا سوچیے۔۔۔


شکریہ




Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...