آج کے معاشرے میں مانو شادی کرنے سے زیادہ مشکل اور کوٸی کام نہیں۔
رشتہ سے لے کر شادی تک کے سفر کو پیچیدہ کر رکھا ہے۔
فرسودہ رسومات کو فرض کا درجہ دیا ہوا ہے۔
انسان نے ان رسومات میں خود کو الجھایا ہوا ہے۔
ہم نے اپنے معاشرے میں عجب نرالے اصول بنا لیے ہیں ۔
اپنی مرضی کے اصول ضوابط طے کر کے خود کو ان کے شکنجے میں پھنسایا ہوا ہے۔
جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ جڑ پکڑتے جارہے ہیں۔
جن کا فاٸدہ تو نہ ہونے کے برابر ہےہاں مگر نقصان خوب ہے۔
پہلے تو جناب لڑکے والے بدنام تھے
کہ جہیز لیتے ہیں, ڈیمانذ کرتے ہیں۔
آج دیکھا جاۓ تو لڑکی والوں نےتو ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔
فرماٸشوں کی لسٹ ہےایک
طویل ترین۔۔۔
پوش ایریا میں رہاٸش
سیلری 6 digit
اپنی کار
چھوٹی فیملی ۔۔۔
MbA BBA MBBS
😪😪
رشتوں کے معیار اتنے بلند کہ مانو پہنچ سے ہی باہر ۔۔
ایک وقت تھا کہ بیٹی کے لیے آنے والے رشتوں کو واقعی دِل سے عزت دی جاتی تھی لیکن جناب اب نٸے دور کے نٸے اور پیچدہ تقاضے ہیں ۔
وقت بدل گیا ہے۔
وقت کے تقاضےبھی نرالےبنالیے گۓ ہیں۔
آپشنز بے بہا کے ہیں ۔
تو نہیں کوٸ اور سہی کوٸ اور نہیں تو کوٸی اور ہی سہی۔
دیکھا جاٸے تو آج ہمارے ہاں شادی کےحوالے سے مشکلات کے انبار کھڑے کیے ہوٸے ہیں ۔ ان گنت مساٸل ہیں جن سے گزر کر شادی تک پہنچ ہوتی ہے۔
اگر عورت اور مرد بالغ ہیں تو پھر دونوں کی عمر میں کتنا بھی فرق کیوں نہ ہو بنا کسی زور زبردستی کے ان کی شادی ناجاٸز تو ہرگز نہیں۔
لیکن آج کل کی نٸ منطق سنیں۔۔
کہ جناب پانچ سال کا فرق بھی جیسے مانو بہت ہی شرمناک بات ہے
😒😒
عورت تو اپنی سے چھوٹی عمر کے سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی
معاشرہ سولی ٹانگ دے گا۔
کوٸی چالس سال کی عورت٣٠سال کے مرد سے شادی کرلے تو آس پاس چےمگوٸیاں شروع ہوجاٸیں گی اور اس بےجوڑ (بقول معاشرے کے)شادی کی وجہ تلاشنے نکل پڑیں گے۔
غریب لڑکا امیر بندی سے شای کرلے تو پیٹ میں مروڑ۔
دولت کا لالچ ہے کا فتوی۔۔
ہمارے مذہب نے یہ اصول ہرگز
نہیں بناۓ
باکل یہ معاشرے کی ڈالی بیڑیاں ہیں جن میں سارے جکڑے ہیں۔
اور معاشرے کے یہ بیکار اصول ہم انسانوں کے ہی بناۓ ہوۓ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہالت کی ان فرسودہ رسومات کو اپنے پاٶں تلے روند دیا تھا تو پھر ہم کیوں ان کو اپنے گلے کا ہار۔۔ نہیں ہار نہیں, بلکہ طوق بنا کربیٹھےہیں؟
کیوں مشکلات میں پڑ کر اپنی زندگی
کو مشکل بنایا ہوا ہے؟
کیوں کوٸ لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
طلاق کو ہمارے مذہب نے جاٸز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ عمل کہا ہے لیکن گالی نہیں بنایا اگرچہ مجبوری ہے اور گزارا ممکن نہیں تو یہ راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ طلاق یافتہ کو کوٸ حقیر یاں اچھوت قرار دے دیا ہو۔
یہ رویہ بھی اس معاشرے کی ہی پیداوار ہے۔
ارے بھاٸی وہ بھی دنیا میں جینے والے عام انسان ہی ہیں طلاق ہوگٸ تو نہ تو ان کے سینگ اگ آتے ہیں اور نہ ہی دم نکل آتی ہے کہ ان کو الگ کٹہرے میں کھڑا کردیا جاۓ۔
لیکن مسٸلہ یہیں ختم نہیں ہوتا پچھلے ایشو کے بعد جنم لیتا ہے ایک اور نیا ایشو۔۔
خیر
یہاں ایشو کہانی ختم نہیں ہوجاتی۔۔۔
پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست 😣
انتظار فرماٸیے 😁😁
جاری ہے
Comments
Post a Comment