خلیفہِ دوم
فاتحِ روم و ایران
مرادِ رسول ﷺ
مشیرِ ابو بکرؓ
دامادِ علیؓ
ؓسیدنا عمرِ فاروق
تمام اصحاب ؓ مریدِ مصطفی ﷺ ہیں، اُن میں سے اگر کوٸی مرادِ مصطفی ﷺ ہے تو اُنھیں
سیدنا عمرِ فاروق ؓ کہتے ہیں۔
جو خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد فرماتے تھے کہ اگر میری جو بات بھی قابلِ اعتراض لگے تو مجھے اُس پر ٹوک دیا جاۓ۔
دلیری اور ہمت کا عالم دیکھیٸے۔
سبحان الله
اور آج والے فرماتے ہیں کہ ہم سےحساب نہ مانگنا کوٸی کون ہوتا ہے بھلا ہم سے کھربوں کی جاٸیداد اور بینک اکاٶنٹس کا حساب مانگنےوالا ۔
😒
آج ملک کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
ایسے میں عمرِ فارق ؓ بہت یاد آتے ہیں
😥
وہ جو اپنے دورِ حکومت میں ایک جانور کے پیاسے مرجانے کی فکر رکھتے تھے کہ اِس کا بھی اللہ مجھ سے سوال کرے گا۔ اور آج ہمارے حکمران ہیں کہ جناب یہاں انسان خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں لیکن اُن کو فکر نہیں۔
بھوک افلاس فاقہ کشی میں عوام گِھری ہے۔
کوٸی پوچھنے والا نہیں ۔
وطن میں غربت کا حال کہاں سے کہاں پہنچ چُکا ہے۔
اُن کا دور تھا تو خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ دینےوالے ہاتھ تو بہت تھے مگر لینے والا کوٸ ضرورت مند نہ تھا۔
ہمارے حکمرانوں کے پاس ہمیں دینے کے لیےصرف باتیں ہیں خوشحالی اور سہولیات نہیں۔
لیکن یہ بھی زندہ جاوید حقیقت ہے جناب کہ اُس وقت کی عوام اور اِس وقت کی عوام کا فرق بھی تو دیکھیں۔ آج ہم کونسا انصاف کے علمبردار ہیں؟آج ہم میں سے کتنے قانون کا نفاذ چاہتے ہیں؟ جو ہم منصف حکمران Deserve کریں۔؟
ہم کیسے سیدنا ابو بکر عمرِ فاروق عثمان غنی اور مولا علی جسے حکمران deserve کر سکتے ہیں؟ کونسی دو نمبری ہمارے ہاں نہیں پاٸ جاتی؟
ٹھگی ،فریب، لوٹ مار تقریباََ یہ تمام معاملات ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
گورنمنٹ کے ادارے ہوگۓ یاں پراٸیوٹ ، اچھاٸی بہت مشکل سے دِکھاٸی دیتی ہے۔
ہمیں اگر عادل ، منصف ، سچے ، کھرے لیڈران چاہٸیے تو بہ حیثیت قوم ہر فرد کو خود کو بدلنا ہوگا۔ پہلے ہمیں اپنے اندر سے بےایمانی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جھوٹ دھوکہ دہی مکاری عیاری سے اپنے معاملات کو صاف کرنا ہوگا۔
ہر ایک اپنے شعبے میں دیانتداری اور ایمانداری کا ثبوت دے۔
اپنے معاملات کلیٸر رکھے۔
نوکری ،کاروبار ، تجارت غرض کہ ہر پیشے میں سے دھوکے بازی ، جھوٹ ،فراڈ ،جعل سازی کو ختم کرے۔
تب ہم بہ حیثیت قوم اِس قابل بن سکیں گے کہ ہم ایک ایسے حکمران کے مستحق ہوں گے جو منصف ہوگا صادق و امین ہوگا جو اپنی رعایا کے لیے
رہم دل ہوگا۔
اب بھی وقت شاید کچھ ہماری مٹھی میں بچا ہے کہ ہم اِس پہلو پر غور کریں۔ ورنہ ہم اِن زمینی خداٶں کے آگے غربت و افلاس لاقانونیت کی چکی میں پِستے رہیں گے۔
نفسا نفسی اور لوٹ مار کے اس دور میں اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے معاملات کو سُدھار لیں، اپنے اپنے قبلے درست کرلیں تو ہم بھی بہ حیثیت قوم دُنیا میں اپنا لوہا منوا سکیں گے۔
ورنہ یوں ہی یہ قوم دنیا بھر میں تماشہ بنی رہے گی
اِس بارے میں زرا نہیں ۔۔
پورا سوچیں۔
Comments
Post a Comment