Skip to main content

Kartarpur Corridor

تقسیم کے وقت سکھوں کی طرف سے کیے گئے مظالم کو بنیاد بنا کر آج ہماری عوام  میں ایک ان دیکھا بغض کرتار پور راہداری کھولنے  پر  بہ خوبی تنقید کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ  تقسیم کے وقت سکھوں نے مہاجرین مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھاۓ
 (بلکل اس حقیقت سے بھی انکار نہیں)
تو اس وجہ سے انھیں کوئی سہولت نہ دی جائے اور اس سے پاکستان کو خطرہ ہے  ,پاکستان  کو خطرہ کرتار پور راہداری کھولنے  پر نہیں بلکہ  اس تنگ نظری  سے  ضرور ہوگا جیسے ہندووں کو انکی تنگ نظری  سے ہوا اور اپنا  ملک تڑوا  بیٹھے .
تقسیم کے وقت مسلمانوں  پر
بے بہا مظالم ڈھاے گئے  بلکل اس حقیقت سے بھی انکار نہیں لیکن ہم اس حقیقت کو کیوں فراموش کیے بیٹھے  ہیں ؟ کاش کے ہم اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کے ہمّت کرسکیں
 ہمیں تاریخ کا مطالعہ کر کے ان مظالم کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اور  ہمارے بزرگوں کے ذریعے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ  ہولناک مناظر  دیکھے اور سنے , اور ہم بچپن سے یہ قصّے سن کر ہندو اور سکھوں سے شدید بیر پالے  ہوے  ہیں جو کہ  ایک فطری سی بات ہے ان ہی  مظالم کی وجہ سے ہماری عوام کا ایک بڑا حصہ  کرتار پور راہداری کے بننے اور سکھ برادری کے لیے کھولے جانے والی اس فراغ دلی پر نالاں ہیں
ہم  یہ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کے بارڈر پار سے آنے والوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا  بازار گرم کیا گیا اس پہ ہمارا دل آج بھی روتا ہے .
تقسیم کے وقت یہاں کے پنجاب میں پچیس فیصد آبادی ہندو اور سکھوں کی تھی وہاں  ہندو سکھوں نے مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے نکلنا شروع کیا اور قتل و غارت گری عزتوں کی پامالی سے لے کر ہر حد پار کی . ادھر کے  مسلمانوں  کو جب اس صورت حال کے بارے میں معلوم ہوا انہوں نے یہاں اپنے علاقوں سے ہندو , سکھوں کو نکلنا شروع کیا , جن علاقوں میں ایک دو گھر بھی غیر مسلموں کے تھے انھے ہر گز رہنے نہ دیا گیا اور جو ظلم ہندو ,  سکھوں نے شروع کیا تھا  ادھر والوں نے اسکا بھرپور بدلہ لیا .
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں کا واقعہ  ہے, لوگوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کروں گی کہ تقسیم کے وقت علاقے کے چند لوگوں نے  گاؤں میں جتنے ہندو سکھوں کے گھر تھے ان کے مکینوں کو اکھٹا کر کے یقین دلایا گیا کہ ہم تمہیں بہ حفاظت ٹرین میں بیٹھا دیتے ہیں , یہ  بول کر ان تمام افراد بہ شمول عورتیں , معصوم بچوں کو شور کوٹ ریل پٹری  پر لے  جایا گیا وہاں لے جا کر انھیں گاجر مولی کے جیسے کاٹا  گیا . وہاں کے مقامی مسلمان خود بتاتے ہیں کہ  ان میں سے کتنے افراد نے مارے جانے سے پہلے کلمہ طیبہ پڑھا اور فریاد کرتے رہے کے  ہمیں مسلمان کر کے اپنے ساتھ رکھ لو لیکن ہمیں  مارو نہ , لیکن  انہوں نے ماں باپ کے سامنے ایک , دو تین سالہ بچوں کو اٹھا اٹھا کر ریل کی پٹری  پر مر جانے تک مار مار کے قتل کیا , ایک ایک کو  قتل کیا اور قتل کر  کے وہیں جلا  دیا
 (وہاں رہنے والوں کی آنکھوں دیکھی )





جیسے جیسے وہاں سے خبریں  آتیں یہاں پر بھی  خوب دل جمی سے عمل کیا جاتا رہا .جیسے  وہاں مسلمان عورتیں پاس زہر رکھ کر ہجرت کے لئے نکلتی تھیں ایسے ہی یہاں وہاں  سے جانے والے سکھوں نے اپنے گردوارے میں عورتوں بچیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا کہ راستے میں مسلمنوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں .
ظلم کے خلاف کھڑا ہونا مسلمان کی شان ہوا کرتا تھا اور ہماری اس تنگ نظری نے ہمیں کہاں لا کھڑا کیا وہ مسلمان جو ایک مظلوم لڑکی کے خط پر جنگ کے لئے نکل جایا کرتے تھے تقسیم کے وقت کلمے کے نام پر دی گئی دہائی پر بھی ان کے  ہاتھ نہ کانپے کس نبی کے امتی تھے جنہوں نے امن  کا  پیغام ہم تک پہنچایا  . ستر سال گزر گئے لیکن یہ تنگ نظری ہنوز برقرار ہے . یہ ملک تنگ نظری کی بنیاد  پر بنایا جاتا تو کبھی نہ بن پاتا  , یہ ملک مسلمانوں  کی تنگ نظری کی بنیاد پر تو نہ بنا تھا , یہ تو ہندووں  کی تنگ نظری کی  وجہ  سے بنانا ضروری سمجھا گیا , انکی انسان اور ذات پات میں تفریق کی وجہ سے دوسرے مذاہب  کا احترام نہ کرنے  کی وجہ سے ہندووں سے الگ ہونا  پسند  کر کے قائد  نے الگ ملک کے لئے جدو جہد کی جہاں کوئی اعلی اور ادنی نہ ہوگا کوئی شودر برہمن نہیں ہوگا کوئی کالا اور گورا نہیں ہوگا سب برابری کے حقوق کے ساتھ رہیں گے  اگر کسی کا مذہبی عقیدت کا مقام ہماری حدود میں ہے تو صرف اس مخصوص  احاطے کو انکے لیے کھول دینے سے کوئی قیامت  برپا نہیں ہوگی . ہماری  فوج  جو ستر سالوں سے سرحدوں کی حفاظت میں لگی ہے کیا وہ آج اتنی فارغ ہوگئی کہ بنا کسی انتظام کے راہداری بنا اور کھول دے گی ؟
الله پاک قرآن میں فرماتے ہیں کے
" آؤ ان باتوں کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہیں "
اور ہم ستر سالوں سے ایک  دوسرے کو  مسلمان بنانے میں مشغول ہیں
 ہماری تنگ نظری ہمیں سوچنے ہی نہیں دیتی اس آیت کی طرف ہم ایک مسلمان ہو کر اتنے فرقوں میں تقسیم  ہو چکے ہیں  کہ یکساں باتوں کی
طرف  کسی کا دیھان نہیں  .
خدا را دل اور نظر اتنی تنگ  نہ کیجیے  خامیاں ہم میں بھی ہیں تاریخ میں گھناونے کام ہم سے بھی ہوے  ہیں انکو بنیاد بنا کر معاملات چلانا بیوقوفی کے علاوہ کچھ نہیں

اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ بھی مذاہب کے لوگ بستے ہیں
اقلیتوں  کے حقوق ہیں . ہمارے
کامل دین میں بہت  وسعت ہے
اگر کسی کے مذہبی عقیدت گاہ ہماری حدود میں ہیں انکو اسکی زیارت کے لیے روکنا  چھوٹی  ذہنیت ہے
ایسی مثال  آج بھارت نے بابری مسجد کے فیصلے کی صورت  دی ہے
انڈیا نے اس  فیصلے کے لئے آج ہی کا دن چن کر دنیا کو اپنی  بدصورتی دکھائی ہے انڈیا کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوا کہ  وہ ایک نفرت پسند تنگ نظر  اور ذلیل قوم  ہے جن کی نظر میں اقلیتوں کی, بل خصوص مسلمانوں کی,.. انکے  مذہب  کی اور انکے جذباتی عقیدت کوئی وقعت اور حثیت نہیں .
   اس وقت کشمیر کی اس سنگین صورت حال میں بھارت کے مختلف علاقوں میں سکھ برادری نے پریشان حال ستا ئے ہوے کشمیریوں کو
 اپنے گھروں میں پناہ دی , اپنی نگرانی میں انھیں محفوظ مقامات پر پھنچنے میں مدد کی .
دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے.
آج  بھارت میں مسلمانوں  کی جو حثیت ہے وہ  دنیا  سے چھپی  نہیں
انڈیا میں 30  ملین سکھ موجود ہیں جو کہ  ہندووں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرتے ہیں دوسری طرف ہندووں کے سامنے وہاں کے مسلمان کی کوئی حثیت نہیں انکو دیوار سے لگا کر رکھا ہوا ہے , آج سکھ جو پاکستان کا ممنوں اور مشکور ہے کیا یہ بھارت میں
کل کو وقت پڑنے پر مسلمانوں کی  سپورٹ  نہیں بنے گا ؟
کیا ہم اتنے  بیوقوف ہیں کہ  پاکستان کے اس راہداری کھولنے والے  اقدام کے پیچھے اپنا کوئی مفاد نہیں ہوگا ؟
زرا نہیں 
پورا سوچئے  ...

  

Comments

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...