Skip to main content

روٹی




!!روٹی

”بھوکے کو فلسفہ نہیں روٹی چاہیے“

اس کی موت  سے پہلے میں نے اسے خودکشی سے بہت روکا
اس نےمجھ سے پوچھا کہ کھانا لاۓ ہو یاں صرف فلسفہ؟

میں نےایک اور دلیل پیش کی کہ زندگی سے ہارنا بزدلی ہے۔

اس نے کہا کہ مگر میرے بچے
وہ تو کٸ روز کے بھوکے ہیں۔

میں نے کہا رزق کاضامن تواللّہ ہے۔

کہا,  اللّہ ! کہاں ہے روٹی لایا ہے ؟؟

میں زچ ہوگیا ۔ ایک اور فلسفہ  گھڑ ڈالا۔
کہ اللّہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس نے کہا کیا بھوکوں کے ساتھ بھی؟
 میں نے اس کو بہکایا
زندگی بہت خوبصورت ہے۔

ہاں جواب دیا جب پیٹ بھرا ہو۔
جب بھوکے بچوں کی چیخیں سماعتوں سے ٹکراتی ہیں تو زندگی بدصورت بن جاتی ہے۔

!! اب میں نے اسے ڈرایا
دیکھو خودکشی حرام ہے۔

ھاھاھاھاھا
اس نے ایک دردناک قہقہہ لگایا جب زندگی حرام ہوجاۓ تو خودکشی حلال ہوجاتی ہے اور لٹک گٸ۔

تب مجھے مارکس کی کہی ایک کہاوت یاد آٸ کہ
جب انسان کا پیٹ خالی ہو تو زندگی کا کوٸ فلسفہ اثر نہیں کرتا۔

یہ طبقاتی نظام جہاں پرصبر کا درس دینے والے زندگی کے حسین نغمے سنانے والے ہمیشہ شکم سیر ہوتے ہیں اور بڑی بڑی گاڑیوں سے اتر کر بھوکوں کو صبر کا درس دے کر پھر اپنےمحل میں جاکر آرام دہ بستروں پر سوجاتے ہیں, مگر  یہ بات بھول جاتے ہیں کہ

بھوکے کو فلسفہ , لاجک یاں کوٸ دلیل  نہیں روٹی چاہیے۔



غربت تو پچھلے ستّر سالوں سے ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسٸلہ ہے لیکن اب تو حالات مذید بدتر ہو چکے ہیں۔

غریب کے پاس نہ روزگار ہے نہ مزدوری کا کوٸ آسرا لیکن پیٹ کا دوزخ ہے کے وہیں اپنی جگہ جوں کا توں ہے جو خالی ہوجاتا ہے تو اور روٹی مانگتا ہے لاجک نہیں۔
 پیٹ کیا جانے کہ کرونا نے دنیا کو گھروں میں قید کردیا ہے اور آدمی روٹی کما کرنہیں لاسکتا۔
پیٹ تو اس فکر سے آزاد صرف روٹی مانگتا ہے فلسفہ یاں دلیل نہیں ۔

بولنا آسان کام بن گیا ہے اور مدد کرنا مشکل۔
اس صورتِ حال میں مدد کیجیے آس پاس والوں کی ,کہیں کوٸ زندگی سے مایوس  نہ ہوجاۓ۔

اللّہ ہمارے حال پر اپنا کرم فرماۓ۔
آمین

Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...