لاہور میں نوعمر
لڑکوں کا واقعہ ہم سب کی نظروں
سے گزرا۔
شرم کا مقام ہے۔
ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں
جہاں کہ انسان وحشی درندوں سے بھی بد تر ہوتے جارہے ہیں۔
وجہ۔؟
عدم توجّہ
پندرہ سال کے بچوں کو انسان کیا کہےگردن تو ان کے ماں باپ کی پکڑنی چاہیے۔
جب والدین ہی دین سے دور ہوں گے تو اولاد کو کیسے نیک بناٸیں گے۔؟
ان میں گناہ ثواب, اچھاٸ براٸ کا فرق کیا پیدا کریں گے۔
آج کل موباٸل , انٹرنیٹ تک بچّے بچّے کی رساٸ عام ہے۔
ان کے بھٹکنے کے چانسز کٸ زیادہ ہیں
ایسے میں آج کل کے ماں باپ کے کاندھوں پر اپنے بچوں کی تربیت کےحوالے سے بڑی بھاری ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے۔
ایسے واقعات آۓ دن سننے کو مل رہے ہیں ہم صرف افسوس کر سکتے ہیں مگر ایسےواقعات سن اور دیکھ کر ہم سبق حاصل کر سکتے ہیں اپنی اولاد کی تربیت پر اور زیادہ توجّہ کر سکتے ہیں۔
ذمہ دار کس کو ٹھراٸیں ؟
بہ حیثیت والدین اولاد پر کڑی نظر رکھیں۔
ان کی ایکٹیوٹیز پر
ان کے دوستوں پر
ان کی گیدرنگ پر
زیاہ دیر گھر سےباہر نہ رہنے دیں۔دوستوں کے گھر آنے جانے میں نظر رکھیں۔
اگر بچّے/ بچّی کا کوٸ دوست آیا ہوا بھی ہے توتنہاٸ میں , بند کمروں میں نہیں بیٹھنے دیں۔ان کی حرکتوں پر نظر رکھیں۔آپ نے جہاں دھیان ہٹایا
یاں نظر نہ رکھی تو بچّوں سے کوٸ بعید نہیں کیوں کہ انھیں صحیح غلط کا اتنا شعور نہیں جتنا آپ کو ہے۔ جب تک انھیں خود اتنا شعور نہیں آجاتا تب تک ذمہ داری تو آپ پر عاٸد ہوتی ہے کہ ان پر نظر رکھیں۔
کھلاٶ سونے کا نوالہ
دیکھو شیر کی نظر
دراصل آج کی ماٶں کی ترجیحات ہی بدل گٸ ہیں
ان کی اپنی الگ مصروفیات ہے۔
ٹی وی, نیٹ , موباٸل
آن لاٸن شاپنگ
جب اپنی ہی مصروفیات میں الجھی رہیں گی تو بچوں پہ نظر کیسے رکھیں گی۔
ارے عقل کو ہاتھ مارو پیدا کیے ہیں تو سنبھالو بھی۔
تربیت بھی تو کرو۔
بچے تو جانور بھی پیدا کرتا ہے, تربیت مگر انسان اپنی اولاد کی کرتے ہیں ۔
ہمارے بچّے کسی کی تکلیف کی وجہ نہ بنیں۔
آپ نے آج انھیں وحشی بننے دیا تو ان کی ذات دوسروں کے لیے مصیبت اور پریشانی کا سبب بنے گی۔
ان کی یہ بری عادتیں پختہ ہوجاٸیں گی۔
پندرہ سولہ سال بہت کم عمر ہے
ان کی خواہشات کو ہوس بنانے سے آپ روک سکتے ہیں
کیسے؟
ان پر کڑی نظر رکھیں
ان سے فراموش مت ہوں ۔
راتوں کو اٹھ اٹھ کر انہیں چیک کریں۔تاکہ ان کو بھی یہ ڈر ہو کہ امّی ابّو کی نظروں میں ہیں ہم۔
وہ کیا کر رہے ہیں کیوں کر رہے ہیں آپ کے علم میں ہونا چاہیے۔
پہلے جواٸنٹ فیملی کا نظام تھا اپنے ساتھ ساتھ باقی بچوں میں بیار کے ساتھ توجہ اور تربیت بھی بانٹی جاتی تھی والدین کے ساتھ دادا دادی چچا تایا خالا ماموں بھی بچوں کو صحیح غلط کی پہچان کرواتے تھے
مگر اب دور بدل گیا ہے اب یہ ساری ذمہ داریاں والدین کو ہی سنبھالنی ہیں۔
ایک اور طریقہ جو میرے خیال سے بچوں کو براٸ سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے وہ ہے
اللہ کا خوف اور ڈر۔
اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اللہ سے آشنا کرواٸیں کہ ہمارا رب ہے وہ ہمیں ہر وقت دیکھتا ہے۔
اچھے کام پہ نیکی اور غلط کام پہ سزا دیتا ہے۔
یہ کچّی عمر ان باتوں کو حافظے میں محفوظ کرنے میں بہت فاٸدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
آج کے اس جدید دور میں یہ طریقہ ہے جس سے ماں باپ اپنے بچوں کو براٸ میں پڑنے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں
اللہ تمام بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھیں
آمین
Comments
Post a Comment