Skip to main content

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ





وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

جن کا ذکر آسمانوں میں کیا جاتا ہے ان کے لیے بے ادبی مسلمان کیسے سہے؟
 جن کا نام بھی بنا درود (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لینا منع ہے ان کی شان میں گستاخی برداشت کرنے کا مشورہ کیسے برداشت کیا جاۓ؟
گستاخی و بے ادبی کو اظہارِ راۓ کی آزادی کہہ کر معمولی بات گردانی جاۓ اور ہم کو اگنور کرنے کا درس دیا جاۓ تو اس پر خاموش کیسے رہا جاۓ؟

 چوٹ دِل پر لگاٸ ہے
ایک دو نہیں کھربوں مسلمانوں کے دلوں پر۔


دیگر مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصے سے لکھنے کا سلسلہ ترک کیاہوا تھا۔

آج  فیس بک پر کراچی کے ایک سپر اسٹور
Bin Hashim Pharmacy And SuperStore
کے پیج پر  ان کی پوسٹ  دیکھی جس میں ان کی طرف سے فرانس کی مصنوعات کے باٸیکاٹ کا اعلان کیا جا رہا تھا۔


دل نےکہا کہ اس دکھ کی گھڑی میں کچھ لکھا جاۓ۔
 
لوگ لاکھ کہیں کہ اشیاء کے باٸیکاٹ سے کچھ نہیں ہوتا ہمارے زرا سے احتجاج سے کیا ہوگا؟ 
بیکار اور بے مقصد کام ہے وغیرہ وغیرہ۔۔
ہمیں یہ عمل بے معنی لاحاصل اور بے مقصد لگے گا۔
لیکن یہ عمل معمولی نہیں ثابت ہوگا۔


ملاٸشیا کی تاجر برادری نے فیصلہ کیا ہے کہ جو سالانہ فرانس سے ١٠٠ بلین ڈالر کی اشیاء  خریدی جاتی ہیں وہ اس بار نہیں خریدیں گے اور دیے گۓ تمام آرڈرز کینسل کردیے ہیں۔

فرانس سے آنے والے پاکستان نیوی کے ہیلی کاپٹرز کا ایک معاہدہ  جو کہ پہلے سے طے تھا وہ پاکستان نے  کینسل کردیا ہے جس سے فرانس کو 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔

گلف ممالک میں بھی یہ مہم زور و شور سے جاری ہے۔
اب آپ مجھے بتاٸیں کہ اس کا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا؟

 یہ سلسلہ ایسے ہی کچھ اور عرصہ جاری رکھا گیا تو کیا ان کی معیشیت کی کمر نہیں ٹوٹے گی؟ 
اب آپ خود سوچیں اور فیصلہ کریں کہ ہمارے اس عمل سے ان کا کس حد تک  نقصان ہوگا۔ 
قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔


اللہ تعالی ہمیں پابند کرتے ہیں کہ 
ہمارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا کہ جب تک اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنی جان , مال ,احباب, آبرو سے بڑھ کر عزیز نہ ہوجاٸیں۔
یہاں بات ایمان کی ہے کوٸ معمولی بات نہیں۔
لبرل اور اوپن ماٸنڈ کا چولہ اتار کر پھینکنا ہوگا۔
آپ یقین جانیے کہ یہ عمل چھوٹا ہرگز نہیں ہے۔
اور اس عمل سے ان کو اتنا مجبور کرنا ہوگا کہ  نہ صرف یہ گستاخی ختم کریں بلکہ مستقبل میں دوبارہ ایسا کرنے سے پہلے ١٠٠ بار سوچیں۔
مسلمان اس دنیا میں کم نہیں ہیں۔ 
مسلم ممالک ان کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہیں ہمیں ان کی مصنوعات کو اپنی زندگی سے نکال کر باہر پھینکنا ہوگا ان کو سبق سکھانے کے لیے کہ ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے سے بڑھ کر عزیز ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وعلیہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے  اور ایسے موقع پر یہ ردِعمل غیرتِ ایمانی ہے 

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

وہ جنھیں دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا آج ایسے موقع پر ان کے لیے ہم نے بہ حیثیت امّت بہ حیثیت قوم کیا کردار ادا کیا  ؟

سوچیں کہ  روزِ محشر اگر اللہ نے ہم سے پوچھا کہ میرےمحبوب ﷺ کی ذاتِ اقدس پر حملے ہورہے تھے  اس وقت تم نے اپنا کیا فرض ادا کیا؟
تب ہمارے پاس دینے  کے لیے کوٸ جواب ہوگا؟

اور بہ حیثیت امّتی کے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھاٸیں گے؟
زرا نہیں
پورا سوچیے۔


جہاں میں ان ﷺ سا چہرہ ہے 
نہ ہے خنداں جبین کوٸ
ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں
 ان ﷺ سا حسین کوٸ 
نہں رکھی ہے قدرت نے
 میرے آقا ﷺ کمی آپ ﷺ میں
جو چاہاآپ ﷺ نے جیسا
وہ رکھا ہے سبھی آپ ﷺ میں۔

محمد ﷺ  کے تقدس پر 
زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے
ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے
کہاں رفعت محمد ﷺ  کی
کہاں تیری حقیقت ہے؟
شرارت ہی شرارت
بس تیری بے چین فطرت ہے
مذمت کر رہا ہے تو 
شرافت کے مسیحا کی
امانت کے
 دیانت کے 
صداقت کے 
مسیحا کی

اگر گستاخ ناموسں احمد ﷺ کر چکے ہو تم تو اپنی زندگی سے قبل ہی
 بس مر چکے ہو تم۔

میرا سامانِ جان و تن 
فِدا ان کی رفاقت پر 
میرے ماں باپ ہوجاٸیں نثار 
ان کی محبت پر
 



Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...