Skip to main content

آہ !! فلسطین


نازل کر اب عیسی

اب بھیج خدایا مہدی کو 

 !!!فلسطین ہم شرمندہ ہیں

پچیسویں روزے کی شب ہے

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ

جگہ ہے قبلہِ اول 

انبیاء کی سرزمین

عبادت ہورہی ہے خداِ واحد کی۔۔

ایسے میں معصوم فلسطینیوں پر عبادت کے دوران صہیونی فوج حملہ آور ہوٸی۔

گولیاں , دھماکے , گرفتاریاں

غرض ظلم و بربریت کی کوٸ کسر نہ چھوڑی گٸ۔

مناظر ایسے تھے کہ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

٢٠ فلسطینی شہید ہوۓ جن میں ٩ معصوم بچے شامل تھے۔

اللہ ھو اکبر۔

قرآنِ پاک کی سورة مطففین  کی یہ آیات نظر سے گزریں 

شاید اس مشکل کی گھڑی میں کچھ مرہم کا ساماں بن سکے۔

جو گنہگار (یعنی کفار) ہیں وہ دنیا میں مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے۔ ٢٩

اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے۔ ٣٠

اور جب اپنےگھروں کو لوٹتے تو اتراتے ہوۓ لوٹتے۔ ٣١

اور جب ان (مومنوں) کودیکھتے تو کہتے کہ یہ تو گمراہ ہیں۔ ٣٢

حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گۓ تھے۔ ٣٣

تو آج  مومن کافر سے ہنسی کریں

 گے۔ ٣٤

 اور تختوں پر بیٹھے ہوۓ (ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے ۔ ٣٥

تو کافروں کو ان کے عملوں کا (پورا پورا) بدلہ مل گیا۔ ٣٦

یہ 👆 میرے رب کا وعدہ ہے 

 ان آیات کو پڑھ کر یہودیوں کی مکروہ حقیقت کا مذید ادراک ہوتا ہے کہ یہ کس حد تک مسلمانوں کو ایذا پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ 

سوال ہے صرف سوٸ ہوٸ غیرتِ ایمانی کا ورنہ یہودیوں کے حشر کے لیے تو خیبر کا قلعہ گواہ ہے کہ ان کا سر کچلنے کے لیے درکار صرف مردِ مومن کی غیرت ہے ,کوٸی بہت بڑی لمبی چوڑی فوج نہیں۔

 تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں کو اللہ کی طرف سے ایک وقت تک کی چھوٹ حاصل ہوتی ہے اور اس دوران امتحان مسلمان (حق پرست) کے ایمان کا لیا جا رہا ہوتا ہے۔

اور آج فلسطین میں ڈھاۓ جانےوالے مظالم کو دیکھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کا مسلمان اس کسوٹی پر فیل ہوتا جارہا ہے کہ کیوں کہ جو  بہت کچھ کر سکتے ہیں وہ خاموش ہیں ان کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔

اپنی کرسی کے چھن جانے کے ڈر سے۔

مغرب کے ڈر سے

اپنی معیشیت کی تباہی کے ڈر سے۔

خاموشی کا مینار بنے ہیں۔

نہ کچھ دیکھ رہے ہیں  نہ فلسطینیوں کی آہ و بکا ان کو سناٸ دے رہی ہے۔

سب اپنے اپنے حال میں مست ہیں 

کوٸی سیاست کا مزہ لے رہا ہے کوٸ بادشاہت کی عیاشیاں سمیٹ رہا ہے۔

یہ وقت گواہ ہے اور گواہ رہے گا کہ  ان عربوں کی اس غدّاری کو سب سے زیادہ فلسطینیوں نے جھیلا ہے ۔خود تو بادشاہت کے عیش میں غرق ہیں اور فلسطینی خون میں۔



جو مغرب جانوروں کے حقوق کی بات کرتا ہے 

فلسطینیوں کے معاملے میں ان کی زبانوں پہ قفل  پڑ جاتے ہیں۔ اور ان کے چیلے بھی زبان بند رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

چہ چہ چہ

آج  دنیا میں کتنے اسلامی ممالک ہیں؟ کیا صرف فلسطین کے حق میں  غم و غصے کا اظہار کرنے کی ذمہ داری صرف ترکی کی ہی رہ گٸ ہے؟

باقیوں نے اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ نہیں دکھانا؟

کیا سب تک انٹرنیٹ کے ذریعہ فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز نظر سے نہیں گزرتیں ؟

سب ہر لمحہ کے حالات سے آگاہ ہیں کسی سے کچھ پسشیدہ نہیں ہے۔

٥٧ اسلامی ممالک میں سے غیرت صرف دو یاں تین کے پاس ہی کیوں ہے؟ 

باقیوں نے کیوں اپنی غیرت اور ایمان کا سودا کر دیا؟

فلسطین میں جن نو عمر لڑکوںکے کھیلنے,پڑھنے کے دِن ہیں وہ اپنے باپ بھاٸیوںکے جنازے اٹھا رہے ہیں

معصوم بچیاں جن کی تعلیم حاصل کرنے یا شادی ہونے کی  عمر ہے اور وہ اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھاۓ اپنے ملک اپنی قوم کا دفاع کرنے میں مشغول ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھی جا رہی ہیں 

کیوں کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کے حق میں نہیں وہ بیت المقدس کو ڈھاۓ جانے کے حق میں نہیں۔اپنی سرزمین چھوڑنے کے حق میں نہیں۔

ماٶں نے بچوں کے ایک ہاتھ میں فیڈر تو دوسرے میں پتھر دیے ہوۓ ہیں ۔جیسے مانو گھر نہ ہو جنگ کا میدان ہو, ہر طرف جنگ کا سماں بندھا دکھاٸ دیتا ہے۔

کیسے جی رہے ہیں وہ ہم کیوں نہیں سوچتے؟

فلسطین کی عوام کی جس طرح کی تصاویر  سوشل میڈیا پر آتی ہیں ان پر زندہ ضمیر ہی تڑپ اٹھے گا ۔



مسلمان کچھ نہ کرتے ہوۓ بھی دہشت گرد کہلاٸیں اور یہ خنزیر اسراٸیلی کیا یہ امن پرست ہیں ؟؟؟ 

اگر یہ ظلم مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلموں پر کیاجارہا ہوتا تو تمام دنیا میں ایک کہرام مچ چکا ہوتا۔  

ان ایشوز کو اچھال اچھال کر پیش کیا جاتا۔

لیکن یہاں بات مسلمانوں کی ہے

ایک ایسے مسلمان ملک کی کہ جس سے کسی دوسرے ملک کا نہ تو کوٸ تجارتی فاٸدہ منسلک ہی نہ ہی یہاں سے کسی کو زکوة یاں فنڈز ملنے کا کوٸ چانس ہے,  تو  ان کےحق میں کوٸی کیوں کر لب کشاٸ کرے گا؟ 

میرا ایک سوال ہے کہ کیا سارے فاٸدے دنیا کے لیے ہی اٹھانے ہیں؟

کیا آخرت کے لیے کچھ خاطر جمع نہیں رکھنا؟

اگر آج فلسطینیوں سے کسی کو کوٸی فاٸدہ حاصل نہیں ہورہا تو کیا کوٸ ان کے حق میں آواز اٹھانا ضروری نہیں سمجھتا؟

کیا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں پڑھا کہ اپنے مظلوم بھاٸ کی مدد کرو۔

سورة ھود کی  آیت نمبر ١١٣ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ

”ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ 

جہنیم کی لپیٹ میں آجاٶگے اور تمھیں کوٸ ایسا ولی و سر پرست نہ ملے گا جو خدا سے تمھیں بچا سکے، اور تم کو کہیں ںسے مدد نہ پہنچے گی۔“

پھر کیوں یہود کی مدد میں کمر سبتہ ہیں ؟؟

رسول اللہ کا فرمان ہے کہ

”جس نے ظالم کی مدد کی، تاکہ اس کے باطل کو حق ثابت کرے، تو اس سے اللہ اور اس کےرسول کا ذمہ ختم ہوگیا۔“

یہ امّت اور بالخصوص دنیا کا مسلم حکمران طبقہ

زرا نہیں پورا سوچیے۔۔

👆  جاتے جاتے ماٶں کے لیے ایک پیغام

 رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے کی رخصت کے موقع پر رب سے دعا ہے کہ۔

!!!  اے اللہ  

فلسطینی بھاٸیوں اور بہنوں کو ظالم پرغلبہ دیں  اسراٸیل کو اسکے ناپاک عزاٸم کے ساتھ غرق کریں۔ 

اور  سوۓ ہوۓ مسلمان حکمران اگر فلسطین کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو ایسے بزدل گیدڑوں سے ہماری جانیں جلد از جلد چھڑا دیں۔

آمین ثمہ آمین۔  

  



Comments

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...