فرسودہ نظام




عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو




میں بیزار ہوں ہر اُس اقدار سے ہر اس تہذیب سے ہر اس روایت,  رسم,  ریت ,  رواج سےجو کسی ایک کو دوسرے پر اتنا اختیار دے  کہ وہ سامنے والے کی زندگی اور موت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لے۔
مجھے نفرت ہے ہر اُس  مرد سے جو  عورت کو بس سزا دینا اپنا اختیار اور حق سجھتا ہے۔
 بلکہ اُس کا فرض تو عورت کی حفاظت کرنا ہے۔
عورت نے  مرد کے مذاج کے خلاف کچھ کیا ہے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے اُس سے تو اسے سزا دی جائے۔ 
پھر وہ سزا کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہو۔
نہ نہ۔
ایسی کوئی اجازت کسی کو کسی نے نہیں دی نہ دین نے نہ  شریعت نے نہ ریاست نے۔
انسان کی جان پر صرف  و صرف اگر حق ہے تو اللہ باری تعالی کا ہے  اول تا آخر۔
اسلام نے جو رشتے بنائے وہ ایک دوسرے سے حقوق کی بنیاد پر جُڑتے ہیں نہ کہ دھونس اور جبر کی بنیاد پر۔ 

میں تمھارا مالک ہوں لہذا میں تھاری جان لے سکتا ہوں۔ 

 ❌❌❌❌❌❌❌❌❌

نہیں ۔۔۔ 

ظلم کے لیے کوئی بھی وجہ قابلِ قبول نہیں

اسلام  صرف ہمیں رشتوں کا احترام سکھاتا ہے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے نہ کہ اُن کی جان اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ 
جو ابھی دنیا میں آیا  بھی نہ ہو , ماں کے رحم میں اُس جان ختم کرنے کی اجازت نہیں۔

یہ غیرت اور عزت کے نام نہاد دعوے دار عزت کے نام پر جان لینا ہی جانتے ہیں۔ ان ہی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے سے  خود کو بری سمجھتے ہیں۔ یہ غیرت نہیں ضد انا اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔

حیرت اور افسوس تو ہمارے ملک کے سسٹم پر ہے جو ٢٠٢٥ میں بھی اتنی پسماندگی کا شکار ہے کہ کوئی بھی جاہل گنواروں کا جتھا آتا ہے اور کسی کو بھی گولی مار دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس دورِ جدید میں جہاں پر ہر ایک کے ہاتھ میں اسمارٹ فون موجود ہے اور کوئی  بھی معاملہ خواں وہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہورہا ہو خبر اور میڈیا سے چُھپ نہیں سکتا۔ 
ایسے دور میں بھی اتنےسارے افراد کو کسی قانون اور ادارے کا زرّہ برابر بھی ڈر اور خوف نہیں تھا ؟ اتنی آرام سے اتنی گھناؤنی کاروائی کر ڈالی دو انسانوں کی جان لے کر۔
کیا جرگہ,  پنچائیت کے فیصلے قانون کے مطابق کیے جاتے ہیں ؟ کیا یہ اپنے قبیلے , گاؤں کے  افراد کے ساتھ انصاف کرتے ہیں؟
یہ انصاف ہے کہ آپ  آٹھ دس گولیاں مار کر منصف بن گئے؟
ابھی اس ایک واقعے پر بیسیوں کہانیاں سننے میں آئیں گی۔ جتنے منہ اُتنی باتیں بنائی جائیں گی مارے جانے والے جوڑے کے قصور گنوائے جائیں گے یاں تو معصوم لکھاجائے گا اور مارنےوالوں کو  بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی ۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ ہیر پھیر  یہاں کتنی آساں ہے۔ در حقیقت جو بھی معاملہ ہو مگر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو بھی سزا اس طرح سے یہ چند  وحشی نما جنگلی قسم کے  افراد کا گروہ دے گا؟
 اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ہے؟
اس دورِ جدید میں ہمارے ہاں سے یہ جہالت کب اور کیسے ختم کی جائے گی اب تو  یہ سوچنا لازم بنتا ہے۔ کب تک ان مردوں کے  غصے,  انا اور نام نہاد  غیرت  کی بھینٹ عورتیں چڑھتی رہیں گی؟ اور کب یوں  قتل کیے جاتے رہیں گے؟

 کیا آج بھی کوئی ایسا ہے کہ جو انسانیت  کے درس سے بھرپور اُن احکامات سے انجان ہو  جو کہ
  نبی آخر الزماں ﷺ  نے حج الودع کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے؟ 

آپﷺ نے کس قدر خوبصورتی سے اپنا  پیغام امت تک اس تاریخ ساز خُطبے کی صورت پہنچایا تھا۔ 


دورِ جہالیت کی رسومات کا خاتمہ اور روشن خیالی کا تاثر دیا
امانت کے معاملات
سود کی حرمت
انسانی جان مال اور عزت کی حرمت
نسلی تعصب کا خاتمہ 
گمراہی میں پڑ  کر آپسی فساد کرنے کی ممانعت
قتل و غارت گری سے ممانعت
سال ہا سال سے جاری خاندانی دشمنیوں کا خاتمہ
اللہ کےحضور اپنے اپنے اعمال کی جواب دہی
عورتوں کے معاملے میں مردوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم
ایک دوسرے سے افضلیت صرف و صرف تقوی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر۔ 

نبی پاک ﷺ نے اس خطبے میں انتہائی واضح الفاظ میں فرمایا کہ دورِ جہالت کی تمام تر فرسودہ  روایات اور رسم و رواج کو  اپنے قدموں سے پامال کرتے ہیں۔ 
خون کے نام پر خاندانی نسل در نسل چلنےوالی دشمنیوں کے خاتمے کا حکم دیا اور اس کی مثال اپنے خاندان سے دی اور اپنے خاندان کے ایک فرد ربعیہ بن حارث کا قتل معاف فرمادیا۔ 
دورِ جہالت کے تمام تر سودی معاملات  کو باطل قرار دیا۔ 
ایک کو دوسرے پر برتری کی تمام تر  صورتوں کو ختم کرکے افضلیت کی بنیاد تقوی  و پرہیزگاری کو  دی۔
کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں
کسی کالے کو گورے پر فضیلت نہیں
امیر کو غریب پر فضیلت نہیں۔

    چودہ   سو سال  سے زائد کا عرصہ گز چکا ہے اور ہم  آج  بھی خود کو جہالت کی فرسودہ رسومات سے آزاد کیوں نہیں کر پائے؟
کوتاہی کس کی  تھی؟
قصور کس کا ہے؟

ایک ایک پہلو نہایت ہی آسانی سے اس خطبے کی روشنی میں عیاں ہے۔ پھر بھی گُمراہی کے کس دلدل میں ہم دھنسے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرح خود کو ان فرسودہ رسم و رواج سے آزاد نہیں کر پا رہے۔
اس بارے میں
 زرا نہیں پورا سوچیے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

21st Century اکیسوی صدی