ایک ہوں مُسلم
اللہ کی مار ہو مسلمانوں کے دشمنوں پر
آج بھارت کی ریاست بہار میں ایک انڈین چیف منسٹر نے ایک مسلمان عورت کے نقاب کی بے حرمتی کی خاتون کا نقاب نیچے کی جانب کھینچا۔
یہ خوفناک منظر دیکھ کر قائدِ اعظم بہت یاد آئے۔
آپؒ کے قیامِ پاکستان کے وقت کہے گئے وہ الفاظ بہت یاد آئے۔ کہ آپ آزاد ہیں اس ملک میں اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔آپ کا مذہب کیا ہے قوم کیا ہے ذات کیا ہے اس کا حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
سلام ہے قائد کی بصیرت پر۔
کہ جنھوں نے ہندوؤں کی اصلیت کے بارے میں پاکستان بننے کی مخالفت کرنے والوں کو اُس ہی وقت آگاہ کردیا تھا کہ یہاں رہنے کے لیے تم لوگوں کو قدم قدم پر اِن ہندوؤں کو اپنی وفاداریوں کے ثبوت دینے ہوں گے جن کو وہ تسلیم پھر بھی نہیں کریں گے۔
قائدِ اعظم , علامہ اقبال اور ہر ایک ایک شخص کے لیے دل دعا گو ہے جنھوں نے اس وطنِ عزیز پاکستان کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا۔ اللہ کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائیں اُن تمام افراد کی قبروں پر۔ جنھوں نے اپنی جانوں کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا۔ جنھوں نے اپنے بھرے پرے گھر کاروبار لگی لگائی نوکریاں سب چھوڑ چھاڑ کر کلمہ کے نام پر بننے والی اس پاک سر زمین پر رہنے کو ترجیح دی۔
ان افراد کی وہ تمام تر قربانیاں نہ تاریخ فراموش کرسکے گی نہ ہم ۔
ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اِن کے یہ قصے سناتے رہیں گے ۔
اگر ایک آزاد مملکت میں کوئی عورت اپنا چہرہ کھولنے کے لیے خود کو آزاد سمجھ سکتی ہے تو بھارت میں چہرہ چھپانے والیاں بھی اپنا چہرہ ڈھانپنے کے لیے اُتنی ہی آزاد ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ بھارت کی ریاست بہار کے اس منسٹر کی یہ گھٹیا حرکت بھارت کی تنگ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کہ یہ اپنے آپ کو ڈیموکریٹک ری پبلک تو کہتے اور لکھتے ہیں مگر اندر سے ان کی اصلیت ان کی سوچ کی طرح چھوٹی اور تنگ نظر ہے۔
ان کو ہمارے ملک کے ڈکیتوں کی تو بہت فکر ہے لیکن ان کے اپنے ملک کی آبادی کے بیس کروڑ سے زائد افراد کے ساتھ حالات و معاملات نہایت ہی خراب ہیں۔آئے دن بھارت کے اس طرح کے واقعات دیکھنے اور سُننے کو ملتے رہتے ہیں
ہمارا تعلق اُس سچے دین سے ہے کہ جس میں ایک مسلمان عورت کو بے حجاب کرنے پر مسلمانوں نے یہودیوں کے ایک قبیلے سے باقاعدہ جنگ کا اعلان کیا تھا۔ اور انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر کے شہر بدر کروایا۔
ہوا یوں کہ جنگِ بدر کے کچھ ماہ بعد مدینے میں ایک مسلمان عورت اپنا تجارتی سامان لیے ایک سنار کی دکان پر بیٹھی ہوتی ہے کہ بنو قینقاع قبیلے کے کچھ اوباش یہودی لڑکوں نے اُس عورت کو نقاب اتارنے کا کہا۔ عورت کی جانب سے انکار کی صورت ان لڑکوں نے عورت کی چادر کا کونہ اُس کی پشت کی جانب رکھی کسی چیز سے باندھ دیا۔ ان اوباش لڑکوں کی اس شرارت کا عورت کو معلوم نہ ہو سکا اور جب وہ کھڑی ہوئی تو اس کا نقاب چہرے سے گر گیا یہ منظر دیکھ کر بیہودہ یہودی لڑکے قہقہے لگانے لگے۔
وہاں سے گزرتے ایک مسلمان نے یہ منظر دیکھ کر اس یہودی لڑکے کو قتل کردیا۔ جواب میں ان اوباش یہودی لڑکوں کے ٹولے نے اُس مسلمان کو قتل کردیا۔ اس طرح بات بڑھتے بڑھتے بارگاہِ رسالت ﷺ تک پہنچی اور یہ قینقاع قبیلہ وہ تھا کہ جن سے مسلمانوں کی طرف سے ایک صحابی حضرت عبادہ بن صامت نے آپس میں صلح کے حوالے سے معاہدہ طے کر رکھا تھا ۔ آپ ﷺ نے عورت کے پردے کی بے حرمتی کا یہ قصہ سن کر فرمایا کہ ہمارا ان سے اس قسم کی حرکتوں کے لیے معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ آپ ﷺ بنو قینقاع قبیلے سے حضرت عبادہ کے ساتھ طے پایا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔
حضرت عبادہ نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کے دشمنوں سے بری اور بیزار ہو کر اللہ اور اللہ کےرسول ﷺ کی طرف آتا ہوں۔
دو ہجری شوال کے درمیانی دنوں میں مسلمانوں نے اس قبیلے کے افراد کا پندرہ دن تک شدید محاصرہ کیا۔
بنو قینقاع کے یہودی مسلمانوں کی اپنی جانب آمد کی خبر سن کر اپنے قلعے اور حویلیوں میں جا چُھپے۔ بالآخر اللہ نے اُن کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت ڈالی۔
یہودیوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اب ان کی جان و مال کا فیصلہ
نبی ﷺ کے ہاتھ میں تھا۔
عبداللہ بن اُبی نامی منافق نے ان افراد کی جان بخشی کے لیے آپﷺ سے بے انتہا سفارش کی کہ میرے ساتھیوں کی جان بخشی کی جائے۔
اس بے ادب منافق عبداللہ بن اُبی نے آپﷺ کو پُشت پر سے زبردستی پکڑ لیا اور ان اوباش افراد کی سفارش میں ضد بحث کرتا رہا کہ آپﷺ نے اُسے ڈانٹ کر فرمایا کہ
تیرا بُرا ہو مجھے چھوڑ دے۔
اُس وقت آپﷺ کو شدید غصہ آیا کہ آپﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے لال ہوگیا۔
منافق نے کہا اُس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک آپ میرے ساتھیوں کے ساتھ احسان کرنے کا وعدہ نہ کرلیں۔ یہ میرے خاندان کے لوگ ہیں میں ان کی تباہی و بربادی سے ڈرتا ہوں۔
آپﷺ نے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ "ان افراد کو چھوڑ دیں اور اُن کے ساتھ اس شخص ابنِ ابی پر بھی اللہ کی لعنت ہو"
اس کے بعد آپﷺ نے عبداللہ بن اُبی سے کہا کہ انھیں لے جاؤ۔اللہ تمھیں ان کے ذریعے سے کوئی برکت نہ دے۔
اس طرح ان افراد کو جلاوطن کردیا گیا اور مدینہ شریف کو چھوڑ دینے کی تین دن کی مہلت دی گئ۔ اور یہ ذمہ داری آپﷺ نے حضرت عبادہ ؓ بن صامت کے سپرد فرمائی۔
ان افراد نے حضرت عبادہؓ سے مذید مہلت مانگنے کی بہت درخواست کی لیکن آپؓ نے ان کو ایک گھنٹے مذید کی بھی مہلت نہ دی اور اپنی مکمل نگرانی میں ان کو مدینہ سے جلاوطن کیا۔
یہ افراد شام چلے گئے اور ایک سال کے اندر اندر یہ تمام ہلاک ہوگئے۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے ابنِ اُبی سے کہا تھا کہ تم ان سے کوئی برکت نہ پاؤ گے۔
یہاں اس سے ایک اور بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح اللہ اور رسولﷺ سے محبت اور اُن کے احکام کی اطاعت مسلمان کے ایمان کا اہم جُز ہیں اس ہی طرح اللہ ,رسول ﷺ اور دینِ اسلام کے دشمنوں سے بیزاری عداوت نفرت اور براءت بھی اُتنی ہی ضروری ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ سے اس واقعے کو اُٹھا کر تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی آج کی حالت کا موازنہ کرنا چاہیے کہ ہم نے کیا کیا کھویا ہے؟
آج کے مسلمانوں میں ایمان کی وہ مضبوطی وہ جرات بھائی چارہ اتحاد جوان مردگی نہیں کہ اپنے حوالے سے اس قسم کی بیہودہ ذہنیت کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن کم از کم اس اوچھی حرکت پر بھرپور ناپسندیدگی کا اظہار کرنا اس وقت کی شدید ضرورت ہے۔
ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس واقعے کی مذمت کی جائے۔
اللہ مسلم امہ کی صفوں کو دوبارہ یکجا فرمادیں۔
آپسی اختلافات بھلا کر اپنے دین کی بقا کے لیے تمام امت ایک صف میں کھڑی ہوجائے۔
اس بارےمیں زرا نہیں پورا سوچیے۔۔



مختصر مگر مؤثر، اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرنے والی تحریر ہے. ماشاءاللہ الفاظ کا چناؤ اور اندازِبیان بھی قابلِ تحسین ہے۔ بہترین کوشش.
ReplyDelete