Skip to main content

” موجودہ دور کے تقاضے“






آج دنیا میں پیچھے ہونے کی بہت بڑی وجہ  ہم میں اخلاقی اقدار کی کمی ہے, اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہ کرنے کی ضد قوموں کو رسوا کرتی ہیں , دوسروں کے اختلافات کو برداشت نہ کرنا قومیت اور مذہب کی بنیاد بنا کر تفریق رکھنا کیا یہ ایک اچھی قوم کی نشانی ہے ؟ 
ہم میں اگر کوئ آپس کے اختلاف ہٹا کر ایک ہونے کی بات کرتا ہے تو ہم کیوں اسے گالیوں سےنوازتے ہیں۔

دنیا میں اپنا کھویا ھوا مقام واپس حاصل کرنے کے لیۓ مسلمانوں کو نہ جانے کتنا عرصہ درکار ھوگا یہ تو رب العزت ہی جانتا ہے لیکن اس سفر میں کوششیں کیا,کیسے اورکتنی ہیں یہ سوچنا اور کرنا ہمارا کام ہے۔ 
 اس سفر میں کیاحکمتِ عملی اپناتےہیں , ہمارا آپسی اتحاد دشمن کی راہ میں کیسےمستقل رکاوٹ بنتا ہے یہ نقطے اہم ہیں ہماری زرا سی لغزش کا خمیازہ کس نتیجے میں بھگتنا پڑتا ہے تاریخ ایسے ہولناک واقعات سے بھری ہوٸ ہے۔
منگول مسلم تاریخ سے ہم بہ خوبی واقف ہیں۔
سن ١٢٠٠ عیسوی کےآس پاس کے وقت  سلطان جلال الدین خوارزم نے اپنے دربار میں منگول سلطنت کا سفیر  قتل کروایا ۔
 اللہ رسول کے حکم کےخلاف اس اقدام کے نتیجے میں چنگیز خان اور اسکی اولادوں نے مسلمانوں کی70 فیصد   آبادی نہ صرف قتل کی بلکہ١٠٠ , ١٥٠سال یہ قتل عام جاری رہا۔ ایک آدھ فتح کے علاوہ صرف نقصان مسلمانوں کے حصہ میں آیا۔
منگولیا سے لے کر یورپ کے بارڈر تک شام ترکی اردن فلسطین , صرف  جنگیں ہی نہیں ہاریں ستر فیصد مسلمان کھوۓ بلکہ یہ سارے علاقےبھی گنواۓ اور دین اسلام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چین کے بارڑر سے یورپ اورمصر کے بارڑر تک  قرآن پاک جلاۓ , حافظ قرآن تو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرواتے تھے ,اور ان کاموں کے کرنے والوں کو انعام دیتے تھے کہنے کا مقصد یہ کہ مسلمانوں کو امن کے دور میں انکا سفیر قتل کرنے کا بھیانک خمیازہ ساری امت نے بھگتا۔
وحشی منگولوں نے جو جنگ انتقامن  شروع کی بعد میں وہ  نظریاتی اختلاف میں بدل گٸ ۔ اس وقت کے عالم فاضلوں کو مساجد میں جنگلی, وحشی  منگولوں کےگھوڑوں کو چارہ پانی ڈالتے دیکھا گیا , مساجد میں جہاں قرآن پاک پڑھا جاتا تھا وہاں رقص کی محفلیں لگاٸ گیٸں منگول شراب میں دھت ناچ گانا کرتے رہے یہ شرمناک اور حولناک مناظر دیکھ کر اس وقت کے امام نے تاریخی الفاظ کہے 
”یہ خدا کی آندھی ہے یہاں بولنے کا مقام نہیں“
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس وقت کی اسلامی تہزیب پر وحشی جنگلی منگول کس جارحیت سے   قابض ہوےاور محض ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر سلطنتِ مسلمہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مقامات , تہزیب,لاکھوں جانوں کا زیاں عورتوں کی عصمت دری , جب کوٸ سوٸ ہوی قوم پر حملہ آور ہوتا ہے اس کے اثرات کس قدر ہولناک اور بھیانک ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس تاریخ سے لگایا جا سکتاہے یہ صرف لکھنا آسان ہے جھیلنا بہت مشکل,  اس وقت کے  مسلم حکمران  ہوش کے ناخن لیتے جنگ اور دفاعی سامان اوراپنے گھوڑے تیار رکھتے تو مسلمانوں کو یہ ہولناک مناظر نہ دیکھنے پڑتے۔ مسلمِ علماء ,فضلاء ,حکماءکوٸ بھی اس کوتاہی سے بری الزمہ قرار ہرگز نہیں دیا جاۓگا کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں کو فروعی معاملات میں الجھا  کر جہاد جیسے اہم کام کی ترغیب نہیں دی اور آپسی معاملات میں الجھاۓ رکھا ۔ جو قوم آپس میں ہی متحد نہیں ہوگی وہ اپنے دشمن کامقابلہ خاک کرے گی؟
جب سر پر منگول آپڑے تب ہر ممکن مسلمان لڑے لیکن بنا تیاری اور لائحہ عمل کے 
بے انتہا نقصان بھگتا۔  ڈیڑھ سو سال بھگتا۔
”وہ کہتے ہیں نہ کہ لحوں نے خطا کی ، صدیوں نے سزا پاٸ“
دوبارہ اٹھنے میں صدی لگ گٸ۔
لڑ کر دیکھ لیا کیا حاصل ہوا؟ نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں. 
اب آپ زرا سوچیں کہ ان سے مسلمان  مزید  جنگ کرتے اور اپنا مزید نقصان کرواتے؟  مصر کے مقام تک منگولوں نے رساٸ حاصل کرلی تھی اگلا حدف اس سے مزید آگے ہوتا۔
 جب جنگ تلوار سے نہ لڑی جاسکے تب حکمت عملی بدلنی پڑتی ہے یہ سمجھداری کہلاتی ہے۔ ان بگڑے ہوۓجنگلی وحشی منگولوں کے ساتھ اللہ والوں نے حکمت سے کام لیا ان پر دین اسلام کے سچے پیغام کی تبلیغ کی آگے چل کر یہ ہی ترک پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہراتے  قابض ہوۓ، سات برِاعظم تک رساٸ حاصل کی۔
اتحاد کی مثال کا اس بات سے اندازہ لگاٸیے کہ یہ وحشی جنگلی جنہوں نے سلطنت کی سلطنتیں تہس نہس کردیں  جب انکا اپنا آپسی اتحاد بٹا تو ان کا زوال شروع ہوا اور
 ١٠٠ , ١٥٠ سال بعد انکا کھیل ختم ہوا یہ وحشی درندے  منگول ,صوفیانِ کرام  اولیا ٕ اللہ کے ہاتھوں مسلمان ہوۓ اور ان واقعات پر کتابوں کی کتابیں مصنفین نے لکھی ہیں ۔ 
جو ڈیڑھ سو سال آپکی تباہی اور بربادی کا باعث بنے, ان سے ہی اپنی ترقی کا کام لے کر اپنی طاقت بنایا اب آپ یہ سوچیں کہ آپس میں لڑ جھگڑ کر یہ کام کیا جا سکتا ہے؟ اس مقصد کو پانے کے لیے کتنی جدوجہد درکار ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہےکہ تاریخ کی غلطیاں دوہرانےسے کچھ حاصل نہیں ھوگا خدار١ وقتی تقاضوں کو سمجھیں ,جو حکمتِ عملی تیار کی جارہی ہے اس پر تنقید کرنے سے پہلے اس کے بعد کے نتائج کےبارے میں غور کریں۔ 
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا
وقت پلٹے گا انشاءاللہ مایوسی کے بادل بھی چھٹیں گے اچھاوقت بھی آۓ گا یہ قوم اپنا کھویاہوامقام ضرور واپس حاصل کرے گی
انشاءاللہ اور یہ سب تب آسان ہوگاجب ہم متحد ہونگے
انشاءاللہ


  





Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...