Skip to main content

Kids early Education





دوڑِ لا حاصل
ہیں ؟ ؟کیا ؟؟ 🙉اوہ ماٸ گاڈ 😱
آٹھ سال کا اور  ٹو کلاس میں ؟😏😏
چہ چہ چہ
میرا بچہ تو جب اتنے سال کا تھا تو  کلاس فور میں تھا۔۔
اپنا آپ عجیب گناہ گار ٹاٸپ فیل ہورہا تھا کہ ہیں یہ بھی کوٸ ایشو ہے 🤔 🤔
کل ایک سہیلی  کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔
وہ ہی خواتین کی روایتی فکروں والی گفتگو سے آغاز ہوا کہ تمہارا بچہ کون سی کلاس میں ہے کون سےاسکول میں اور کتنے سال کا ہے۔
ہمارے ہاں بھی جینے کے معیار نرالے ہیں اسکول مافیانے اپنی جیبیں بھرنے کے لیۓ
ایک سسٹم بنایا ہے اور سب اندھا دھند اسی کےپیچھے بھاگے جا رہے ہیں بھاگے جارہےہیں۔
اچھابھٸ کیا یہ ہی جینے کا معیار رہ گیا ہے
 ہمارے ہاں ؟ کہ ایک مخصوص عمر میں اسکول جانا ہے نہ داخل کروایا تو عدالت تو پھانسی کی سزا دے نہ دے یہ ہمارا معاشرہ ضرور سولی ٹانگ دے گا اس گناہ کی پاداش میں۔
نہیں میرا ایک سوال ہے آپ بتاٸیں کہ کالج میں ایڈمیشن کے وقت کس نے آپ سے پوچھا تھا کہ کس عمر میں اسکول داخل ہوۓ؟ یاں کس عمر میں میٹرک کیا تھا؟
آگے تعلیمی میدان کے دور کے کس مرحلے میں اس کی بابت پوچھا جاتا ہے؟
یونیورسٹی کے ایڈمیشن کے وقت ؟
جاب کے انٹرویو کے وقت؟
نکاح نامہ ساٸن کرتے وقت مولانہ صاحب نے؟
تو اس کا جواب ہے جی بلکل صحیح پہچانا آپ نے۔  ناں, نہیں  بلکل نہیں, ہرگز  نہیں ایسا سوال توکسی سطح پر نہیں پوچھا گیا  نا پوچھا جاتا ہے عموماجب یہ مسٸلہ زندگی کی کسی سطح پر کسی قسم کی رکاوٹ یا مسٸلے کا باعث نہیں ہے تو ہم اس بیکار کے جھنجھٹ میں پڑ کر آخر کیوں اپنے  کمسن معصوم بچوں کو اسکول میں دھکیل دیتے ہیں؟ کم از کم ایک دو سال تو اور اِن ننھنے منّے بچوں کو ٹھیک سے چلنے ,بولنے کے قابل ہو لینے دیں کہ اپنی بات  بتااور سمجھا سکیں اور ان کی زندگی کے یہ شروع کےسال  گھر کے ماحول میں ان کی بنیاد مضبوط بنانے میں صرف کریں کیونکہ  ایک دفعہ جب یہ تعلیمی سلسلہ شروع ہونا ہے تو آگے کٸ سال برقرار رہے گا تو کیوں نہ ان اواٸل سالوں میں بچوں کو کچھ گھرمیں ہی سکون سے جینے دیا جاۓ؟



اللّہ تعالی نے بھی نماز سات سال میں جا کربچے پر فرض کی کہ اب وہ  اس  قابل ہوا کہ یہ ذمہ داری اٹھا سکے ۔ اور آپ اس کو جو صحیح سے چلنے بولنے کے قابل بھی نہیں
ہوا ہوتا اسے کس گورکھ دھندے میں ڈال رہے ہو۔


ستم ظریفی کا عالم دیکھیں  کہ معصوموں کے پیمپر ,فیڈ کی عمر ہی ہوتی ہے کہ اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک انتہاٸ خوف ناک ایشو(میرے لیۓ ت خوفناک ہی ہے) کی جانب توجّہ مبذول کرنے لگی ہوں کہ کچھ دن پہلے  فیس بک پر خواتین کے ایک گروپ پر ایک پوسٹ پڑھ کے حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ جی محترمہ اس پوسٹ میں ساتھی  ممبران سےکسی علاقے کے ٹیوشن اکیڈمیز کے بارے م

علوم کر رہی تھیں, 
ڈھاٸ سال کے بچے کے لیۓ 🙊🤕😔 جی صحیح پڑھا آپ لوگوں نے ڈھاٸ سال کے بچے استغفراللّہ
 پڑھ کر دل نے بے ساختہ کہا کہ پال نہیں سکتے تو پیدا
کیوں کرتے ہو  😕😕



اور تو اور آگے سے کمنٹس پڑھ کے تو مانو خودکشی کرنے کادل کیا آگے سے جیسے اس ہی قسم کے کمنٹس کا طوفان کھڑا تھا کہ جی فلاں اکیڈمی ہے ,یہ اکیڈمی اچھا ہےوہ اچھانہیں ہے میں نے تو اس والے میں داخل  کروایا تھا اپنےبچے کو میں نے تو فلاں سے نکلوا لیا تھا اور فلاں میں  ڈلوادیا تھا😒




 اپنا آپ عجیب کسی دوسرے سیّارے سے پہلی بار اس دنیا میں آۓ ہوۓ PK کے عامر خان جیسا لگا 👽 👀
 بعد میں ایک دوست نے بتایا کہ بھٸ یہ تو بہت عام رواج ہے یہاں آپ کو اب معلوم ہوا  ہے۔
مجھے بچوں کو پڑھانے اور اسکول بھیجنے پر  پر ہرگز اعتراض نہیں لیکن یہ کیا حال ہوگیا ہے اسکول میں داخلہ لینے کا اس کارواٸ کو اتنا عذاب کیوں بنا دیا ہے ہمارے ہاں والدین نے؟ اسکول والوں کا تو اس سب میں  اپنا مفاد ہوتا ہے اس وجہ سے مونٹیسری کنڈرگارڈن,  پلے گروپ وغیرہ کے سلسلے کماٸ کا ذریعہ بناۓ ہوۓ ہیں داخلہ پالیسی سے لے کر فیس , اسکول کا تعلیمی نظام  سب کچھ اپنے فاٸدے کے مطابق سیٹ کیا ہوا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ والدین کیوں اس چکر کو نہیں سمجھتے اور خود جانتے بوجھتےاس کاحصہ بن جاتے ہیں نہ صرف اس دوڑ میں کود کر اپنے اتنے چھوٹے بچوں کا اسکول شروع کرواتے ہیں بلکہ اسکول کے فارم اور داخلے کے چکر میں صبح سویرے سےاسکولوں کے باہر لایٸنیں لگاٸ ہوتی ہیں گاڑیوں کا جمِ غفیر لگاہوتا ہے جیسے ایک دوڑ ہے اور بس سب بھاگ رہےہیں  افراتفری مچی ہے جیسے۔ جب آپ اتنی بےتابی دکھاٶ گے ان اسکولوں کو  وہ تو آپ کے اس طریقے سے شہ پاکر مذید اپنے فاٸدے نکالیں گے آپ کی مشکل مذید بڑھا کر آۓ دن فیسیں بھی بڑھاٸیں گے , اپنی پالیسیز  بھی مشکل کریں گے کورس کے معاملات میں بھی پریشان کریں گے اور ان کا تو فاٸدہ ہی فاٸدہ ہر چیز پر ہے۔




اسکولز تو ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل کسی مافیا سے کم نہیں ہیں لیکن یہاں قصور وار  ہم ہیں ۔
اسکولز کی ہرالٹی سیدھی پالیسی پر پورا اترنے کے لیۓ ہر حد تک جاٸیں گے فجر سے لاٸنیں لگا کے کھڑے بھی گے ,دو  ڈھائ  سال کے معصوم سے بچوں کو اتنی سی عمر میں ان کی عمر سے بڑھ کے نصاب کا بوجھ ڈال  کر ذہنی دباٶ کا شکار بھی کریں گے , اسکول کی منہ مانگی فیسیں بھی راضی بہ خوشی دیں گے (داخلہ , ماہانہ دونوں)یاں تو خود مار پیٹ کر ان کاباقاٸدہ بھرکس نکال کر انہیں کورس رٹواٸیں گے  یاں ٹیوشن اکیڈمیز میں دھکیلیں گے۔
 اوۓ ظالموں کچھ رحم کرلو معصوموں پر , اتنی محنت اتنی سی عمر میں بچوں سے کرواٸ جا رہی ہے۔ ڈھاٸ سال کے بچے کو ٹیوشن بھیج کر مخصوص اسکول میں داخلے کے لیۓ تیاری کروانا کیا یہ معصوم کے ساتھ زیادتی نہیں؟
 ہمارے اس  تعلیمی نظام کا المیہ یہ ہے کہ
تمام اسکول پڑھا ایک ہی کورس رہے ہیں مگر قیمت الگ ہے,   تعلیم اور اسکول صرف و صرف کاروبار بن کے رہ گیا ہے
اسکولوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہواجا رہا ہے جس کو جہاں جگہ ملی اسکول کھول کر پیسہ بنانے کا بزنس شروع۔ معیارکی کسی کو فکر نہیں




اب والدین خود فیصلہ کریں گے کہ اس اسکول مافیا کو  مذید آگے بڑھ کے والدین کو لوٹنے سے روکنے کے لیۓ  اقدام اٹھانے  ہیں یایوں ہی خود ان کے ہاتھوں لٹواتے جانا ہے اور  اس لاحاصل دوڑ مں اپنے معصوم بچوں کو بھگانا ہے یا انہیں انکا بچپن انجواۓ کرنے دینا ہے  
عروج بنتِ مسعود






Comments

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...