Skip to main content

Guzara




گزارا۔

میرا گزارا ممکن نہیں اب تمہارے ساتھ۔
کیوں؟ 
کیوں کہ میری خواہشات پوری کرنے کی 
تمہاری حیثیت نہیں۔
اس کا مطلب کیا؟ علیحدگی؟
ہاں بالکل میری خواہشات ہیں کچھ ترجیحات ہیں, میرے بھی تو کچھ ارمان ہیں کب تک تمہارے ساتھ  یوں ترس ترس کے زندگی گزاروں گی؟ گزارا مشکل ہے
گزارا؟ 
وہ ہو تو رہا ہے, اتنا توکما لیتا ہوں کے اچھا گزر بسر ہو اتنے سالوں سے ہو بھی تو رہا ہے ۔
مگر میری خواہشات۔۔۔۔۔!!!؟؟؟

خواہشات کے آگے کیا اگر اورکیا مگر۔
مسلمان ہونے کی حیثیت  سے بچپن سے ہمیں اللّہ کا شکر کرنا سکھایا جاتا ہے  ۔ کم کھاٶ یا ذیادہ کھاٶ بیٹا اللّہ کا شکرادا کرو۔ دینِ اسلام ہمیں سکھاتا ہےکہ ہمیں اپنے سے نیچےوالے کو  دیکھنا ہے کیوں؟  تاکہ ہم اِس سے بھی اللّہ کا شکر ادا کریں کہ ہم سے زیادہ مشکل زندگی کوٸی جی رہا ہے۔
 بچپن سے ایک لفظ سکھایا جاتا ہے شکریہ بولو یا شکریہ کرو۔
کیوں؟ کیوں کہ تاکہ یہ زندگی گزارنا آسان رہے انسان کے لیے۔
لیکن انسان جیسے جیسےبڑا ہوتا جاتا ہے اس کے شکوے بڑھتے جاتے ہیں
جب ہماری ذندگی سے شکر نکل جاتا ہے تو پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
پھر ایک خواہشات کا ٹھاٹھے مارتا سمندر نہیں سونامی ہوتا ہے جو کہ سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔
بھرم,انا ,عزت, محبت, وفا  اعتبار 
سب کچھ
پیچھے رہ جاتا ہےتو صرف پچھتاوا۔
دیکھا جاۓ تو زندہ رہنے کے لیے پیٹ بھر روٹی اچھے کپڑے چار دیواری بنیادی ضروریات کا پورا ہوجانا ناکافی نہیں ہے۔ 
لیکن اس کے لیے طبعیت میں شکر ہوناضروی ہے۔ 
بڑوں سے سنا ہے کہ شکر کرنے سے بڑھتا ہے
چلیں آٸیں آزما کے دیکھتے ہیں
میں بھی اور آپ بھی۔
🙂  پڑھنے کا شکریہ






Comments

  1. Very nice and true.. jab insan ko kese chez ki kami mehsos ho yo osko chaya k wo apny say kamtar ko deakhay or shukar ada karay.. weasy to insan bohat gunahgar hy... I aldo try to do the same but kya karyn insan hyn.. hamesha oski kami zeada mehdos joti hy jo nahen hy hamary pass.. oska shukar hum ese dukh myn karna bhool jatay hyn jo hamary pass already hy...

    ReplyDelete
  2. Nicely written and it is our responsibility not just practice Thanking God but preach this message to all for all the things we have although they are few or very much.

    ReplyDelete
  3. zabardast ... bilkul theek likha ha .. Allah or himmat or ilm aata kary. ameen

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...