موسمی تہوار کی آڑ میں مذہبی تہوار؟
(حصہ اوّل)
بسنت کیا ہے یہ کس کی تہذیب ہے اور لاہور میں اس کا اتنے جوش و ولولےسےاہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟
آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟
آٸیں آپ کو بتاتے ہیں۔
انسانی معاشرے کے دورِ اول میں مذہب کا انسان کی ذندگی پر گہرا اثر ہوتا تھا اس لیۓ یہ نا ممکن ہے کہ بنا مذہبی وجوہات کے کسی تہوار کو محض موسم اور ثقافتی بنا پر راٸج کیا جاۓ۔
ہندو اپنے تمام تہوار مذہبی عقیدت سے مناتے ہیں۔ ہولی ,دیوالی , دسہرا بسنت , بیساکھی کےبارے میں سب علم رکھتے ہیں کہ یہ ان کےمذہبی تہوار ہیں جن میں یہ لوگ مختلف پوجا پاٹ کے ساتھ اپنے دیوتاٶں کی نذر نیاز چڑھاوے مذہبی عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں دو اور تہوار بسنت اور بیساکھی کو موسمی اورثقافتی تہوار کہنا سادہ لوح انسانیت کو دھوکا دینے کی بات ہے۔
ہندومذہب کا شمارقدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے۔ تاریخ میں ان کی مذہبی رسومات کے پس منظر سے لوگوں کو صحیح واقفیت نہیں ہے اور یہ بھی کم عقلی ہے کہ جن کی حقیقت کے بارےمیں واقفیت نا ہو لیکن اس کی تقلید کرنا۔ ہاں اگر کوٸ جان کر انجان رہنا چاہے یہ انکی اپنی پسند لیکن راۓ عامہ کو گمراہ کرنا بھی ٹھیک نہیں۔
اسلامی تاریخ کے قابلِ فخر محقق اور ساٸنس دان البیرونی ایک ہزار سال قبل جب ہندوستان تشریف لاۓ انہوں نے کلرکہار (ضلع چکوال) ہندوٶں کی یونیورسٹی میں عرصہ دراز قیام کیا۔ انہوں نے یہاں ”کتاب الہند “ جو کہ ان کی مشہور تصنیف ہے, لکھی۔
کتاب میں انہوں نے عنوان ”عیدین اور خوشی کے دن“ پر مضمون لکھا۔
لکھتےہیں کہ” اس مہینے میں استواۓ ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے۔ ہندو اس کے حساب سےاس وقت کا پتہ لگا کر عید کرتے ہیں برہمنوں کو کھلاتے ہیں دیوتاٶں کو نذر چڑھاتے ہیں “ ۔
دوسرا یہ کہ البیرونی کے بیان کے مطابق ہندو جوتشی ہر سال استواۓ ربعیی کا تعین کر کے یومِ بسنت کا اعلان کرتے ہیں ۔یہ ہی تصور آج تک چلا آرہا ہے ۔ بےساکھی کا تہوار بیساکھ کے مہینے میں گندم کی کاشت پر کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک ثقافتی تہوار ہے لیکن ہندو کاشتکار اس دن برہمنوں کو گندم کے نذرانے دیتے ہیں اور اپنے دیوتاٶں سے گندم کی فصل میں اضافے کی دعاٸیں کرتے ہیں۔
بسنت کو آج کل پالا اڑنت کا نام دے کر موسمی تہوار بتایا جاتا ہے جب کہ البیرونی نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں کہیں نہیں کیا ۔
بسنت منانے کے متعلق انگریز مٶرخ الیگزینڈر بریز جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں لاہور آۓ تھے انہوں نے یہاں بسنت مناٸ اور اپنی ایک کتاب میں یوں تحریر کیا کہ۔
بسنت کا تہوار جو بَہار کا تہوار تھا۔6 فروری کو بڑی شان و شوکت سےمنایاگیا۔ راجا رنجیت سنگھ نے ہمیں اس تقریب میں مدعو کیا ۔ اور ہم اس کے ہمراہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر اس میلے کی بہار دیکھنے چلے۔ جو بہار کاخیر مقدم کرنے کے لیۓ منایا جاتا ہے۔
لاہور سے میلے تک مہاراجہ کی فوج دو
رویہ کھڑی ہوتی ہے۔ مہاراجہ گزرتے وقت اپنی فوج کی سلامی لیتا ہے۔ میلے میں مہاراجہ کا شاہی خیمہ نسب تھا جس پر زرد رنگ کی ریشمی دھاریاں تھیں۔ خیمے کے درمیان میں ایک شامیانہ تھا جس کی مالیت ایک لاکھ تھی اور اس پر موتیوں اور جواہرات کی لڑیاں آویزاں تھیں۔
اس شامیانے سے شاندار کوٸ چیز نہیں ہوسکتی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلے بیٹھ کر گرو گرنتھ کا پاٹھ سنا پھر گرنتھی کو تحاٸف دیے اور مقدس کتاب کو دس جذدانوں میں بند کردیا, سب سے اوپر والا جزدان بسنتی رنگ کا تھا۔ اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خدمت میں پھل اور پھول پیش کیے گیے جن کا رنگ ذرد تھا۔ بعد ازیں امرإ , وزرإ اور افسران آۓ جنھوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے۔ انہوں نے نذریں پش کیں اس کےبعد طواٸفوں کے مجرے، مہاراجی نے دل کھول کر انعامات دیے۔
(نقوش لاہور نمبر ص 763)
انگریز مٶرخ کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کی اگر راجا رنجیت سنگھ کے دور میں بسنت بظاہر بہار کا خیر مقدم کرنے کے لیےمناٸی جاتی ہے مگر اسکی تقریبات میں مذہبی رنگ غالب ہے۔ میلے میں باقاٸدہ گرنتھ سننا مذہبی رسومات کے زمرے میں آتا ہے۔
ہندو برہمنوں کو نذرانے دیتے ہیں سِکھ گرھنتوں کو تحاٸف۔
سِکھ مذہب میں سبز رنگ کو خاص تقدس حاصل ہے۔
فروری کے شروع ہفتے مں موسم نہایت سرد ہوتا ہےتو یہ کہنا کہ یہ بہار کا خیر مقدم کرتا میلہ تھا,مناسب نہیں شاید انگریز مٶرخ حقیقت راۓ والے واقعے سے انجان ہوں۔
تقریباََ دو سو سال پہلے مغلیہ دور کے وقت لاہور کے ایک ہندو طالبِ علم نے
پیارے آقا صلی اللّہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی جس کا اس نے اعتراف بھی کیا ۔ لوگوں نے اسے کہا کہ اپنا دھرم چھوڑ کے مسلمان ہوجاۓ لیکن اس نے انکار کردیا۔ اور قاضی نے اس کو پھانسی کی سزا سنادی جس پر عمل درآمد بھی کردیا گیا اور علاقہ گھوڑے شاہ میں سکھ نیشنل کالج کے گراٶنڈ میں اس کو پھانسی دے دی گٸی۔
”قیامِ پاکستان سےپہلے ہندوٶں نے یادگار کے طور پر اس جگہ مندر کی تعمیر کی جو کہ تادیر آباد نہ رہ سکی اور قیامِ پاکستان کے بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گۓ۔ اب اس جگہ انجینٸرنگ یونیورسٹی بن چکی ہے ۔ ہندوٶں نے اس واقعہ کو تاریخ بنانے کے لیۓ اپنے اس ہندو طالبِ علم کی قربانی کو بسنت کانام دیا اور جشن کے طور پر پتنگ اڑانا شروع ہوگۓ ۔ آہستہ آہستہ یہ پتنگ بازی لاہور سے انڈیا کے اور شہروں میں بھی پہنچ گٸ۔ اب ہندو تو بسنت کی اس بنیاد کو بھول چکے ہوں گے, مگر پاکستان میں مسلمان بسنت منا کر اسلام کی رسواٸی کا اہتمام کرتے رہے ہیں“۔
(روزنامہ نواۓ وقت: 4 فروری 1994)
ہندو نوجوان حقیقت راۓ کو توہینِ رسالت کے جرم میں سن 1803ء میں موت کی سزا سنا دی گٸی۔
حقیقت راۓ کو ہیرو بنانے کے لیۓ اسکی یاد میں بسنت میلہ منانا شروع کردیا گیا ۔ ہندوستان میں بسنت منانے کا تصور پرانا ہے مگر پنجاب بالخصوص لاہور میں بسنت کو عوامی پذیراٸ اس میلے کی وجہ سے ملی۔
ایک ہندو مٶرخ ڈاکٹر بی ایس نجار اپنی ایک کتاب
Punjab under the later Mughals
میں اس واقعہ کا ذکر یوں کیا۔
” حقیقت راۓ باگھ مل پوری , سیالکوٹ کے کھتری کا پندرہ سالہ لڑکا تھاجسکی شادی پٹالہ کے کشن سنگھ بھٹہ کی لڑکی کے ساتھ ہوٸ حقیقت راۓ کو مسلمانوں کے سکول میں داخل کیا گیا ۔ جہاں ایک مسلمان ٹیچر نے ہندو دیوتاٶں کے بارے میں کچھ توہین آمیز باتیں کیں۔ حقیقت راۓ نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اس نے انتقاماََ پیغمبرِ اسلام صلی اللّہ علیہ وسلم اور سیدة فاطمہ الزہراؓ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کۓ۔
اس جرم پر حقیقت راۓ کو گرفتار کر کے کوٸ سفارش سنے بنا سزا سنا دی گٸ۔ جس پر پنجاب کی غیر مسلم برادری نوحہ کناں رہی۔ لیکن خالصہ کمیٹی نے اس کا انتقام مسلمانوں سے لیا اور وہ تمام لوگ جو اس واقعہ کو جاتنے تھے بے رحمی سے قتل کردیا “۔ اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ پنجاب میں بسنت کا میلہ حقیقت راۓ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
اس وقت ذراٸع ابلاغ اتنے تیز نہیں تھے کہ فوراََ اس واقعے کی اطلاع صدر مقام سے دور علاوں میں پہنچ سکتی البتہ ہندوٶں کے ایک گروہ نے اس واقعے کے خلاف شدید جذباتی ردِعمل کا اظہار کیا۔ اس وقت پنجاب میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔
اس واقعے کے پچاس سال بعد۔ سکھوں نے مسلمانوں کو پنجاب میں شکست دے کر تختہ لاہور پر قبضہ کرلیا اور اس واقعے کے حوالے سے بسنت کا تہوار جوش و خروش سے منانا شروع کردیا۔
(جاری ہے)
Excellent
ReplyDeleteشکریہ
Delete