Skip to main content

بچے





بچے

اللّہ رب العزت کی ایک بہت ہی حسین اور معصوم تخلیق ہیں بچے۔
یہ ننھے  ننھے پھول جیسے معصوم وجود جو ماں باپ کی آنکھ کی ٹھنڈک اور دل کے سکون کا باعث ہیں یہ کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔ اگر  عدم توجہ کا شکار ہوجاٸیں یا یوں کہہ لیں کہ تربیت میں کوتاہی ہوجاۓ تو یہ کل کو معاشرے میں ایک فتنہ اور وبال بن کے رہ جاتے ہیں
دینِ اسلام نے ماں باپ کو بچوں کی پروش صحیح ڈھنگ سے کرنے  ,انکے حقوق ادا کرنے ان کےساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا پابند کیا ہے ایک فرض کی حیثیت کی طرح۔ 
کیوں کہ اللّہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک بہت اہم نعمت اولاد ہے جیسے نعمتوں کا حساب لیا جاۓ گا ویسے ہی اس نعمت کی بابت بھی والدین پر  بھاری ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کیوں کہ والدین سے اس کا سوال ہوگا۔ 



ایک اچھا معاشرہ اچھے افراد سے تشکیل پاتا ہے ۔ اس صورت میں ماں باپ کی بچوں کی تربیت پر توجہ معاشرے کے سنوار اور بگاڑ کا ایک اہم سبب بنتی ہے۔ 
ماں باپ پر یہ ضروری ہے کہ وہ بچوں کو اچھاٸی براٸی میں فرق سمجھاٸیں۔ 
جو باتیں ہم روز مرّہ کے روٹین میں انجام دیتے ہیں دراصل بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں۔
جب بچے ہوں تو انسان کو اپنی زندگی بہت دیکھ بھال کر گزارنی پڑتی ہے کیوں کہ اس کے ایک ایک عمل سے  بچوں
کی تربیت  ہورہی ہوتی ہے۔


نیند انسان کی زندگی  میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے, ایسے ہی مکمل نیند چھوٹے بچوں کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔
اس حوالے سے بچوں کی روز مرہ کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے یہ چند باتیں بھی توجہ طلب ہیں ۔



جیسے کہ
سوتے ہوۓ بچے کو جگانے کے لیے اوپر سے بستر نہیں کھینچنا چاہیے,  نہ انھیں کوسنے دے کر اٹھانا چاہیے۔

رات کو جلدی سلانے کی عادت ڈالنی چاہیے,
اور انہیں سلاتے وقت یہ جملہ کہیں کہ  آپ نے صبح جلدی اٹھنا ہے جب آپ کو صبح اٹھاٶں تو آپ کو پہلی آواز پر اٹھنا ہے۔

الارم کی آواز پر اٹھنے کی عادت کا ہونا بھی ایک اچھی عادت ہے۔
اس کی پریکٹس بھی کرانی چاہیے اور نصیحت بھی کرنی چاہیے کہ بیٹا الارم کی پہلی آواز پر آپ نے اٹھ جانا ہے۔
یہ عادت بچے کو زندگی بھر نیند سے اٹھنے کے معاملے میں سست نہیں ہونے دے گی۔
کیونکہ نیند کا انسان کی زندگی پر غلبہ ہونا بہت نقصان دہ ہے۔
جب بچہ ایسا کرنے لگے کہ آپ کے اٹھانے پر  یا الارم کی آواز پرجلدی  اٹھ جاۓ تو اسے ضرور سراہیں ۔

 بچوں کو  سلاتے وقت کسی چیز سے ہرگز نہیں ڈراٸیں ۔کیوں کہ یہ ڈر اس کے زندگی بھر دل میں بیٹھ جاۓ گا۔


اگر آپ موباٸل میں مصروف رہیں گے , بچے بھی وقت پر نہیں سو سکیں گے,  دوسرے کام کچھ دیر کے لیے چھوڑ کر  بچوں پر اپنی پوری توجہ دے کر انہیں سلاٸیں۔

بچوں کی غذا میں دیسی خوراک کا استعمال لازمی کریں تاکہ بچے مضبوط و جاندار بنیں اور انہیں پرسکون نیند آۓ اور وہ تندرت و توانا انسان بنیں۔

بچوں کو سلانے سے پہلے آپ سونے کی دعا اور کلمہ طیبہ لازمی ان کے سامنے پڑھیں تاکہ ان کے حافظے میں بھی محفوظ ہو۔ 



کیوں ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے سونے سے پہلے کے وقت کی کہی ہوٸ باتیں بہت جلدی سمجھتے اور انہیں  اپناتے ہیں۔ یاں یوں کہہ لیں کہ بچوں کو چھوٹی چھوٹی نصیحتیں
 سونے سے پہلے کرنی چاہیۓ۔

شروع عمر جیسے کہ دو سے تین سال سے ہی ان باتوں کی عادت ڈالنا شروع کریں گے تو عملی زندگی میں آنے تک
بچے خود ہی ان اچھی عادتوں کے عادی ہوجاٸیں گے اور  ان کی شخصیت پر اچھا اثر پڑے گا۔


Comments

Popular posts from this blog

Nadia Khan & Sharmeela farooqi Issue

کچھ دن پہلے   ٹی وی اداکار علی انصاری اور صبور علی کی  مہندی کی تقریب منعقد ہوٸی تھی، جس میں  پاکستانی ایکٹریس اور مارنگ شوز کی ہوسٹ نادیہ خان نے بھی شرکت کی اور وہ اپنے سیلفی کیمرہ سے مہندی  کے ایونٹ کی ویڈیو ناتیں  اور تقریب میں شریک مختلف مشہور شخصیات سے گفت و شنید کرتی دکھاٸ دے رہیں تھیں ۔  اس ہی ویڈیو میں ایک سے دو منٹ کا کلپ آتا ہے کہ جس میں  نادیہ خان پیپلز پارٹی کی رکن محترمہ شرمیلا فاروقی کی والدہ انیسہ فاروقی کو  ان کے میک اپ ، ڈریسنگ   اور جیولری  پر  Compliment کر رہی تھیں ، ان کو سراہ  رہیں تھیں۔ بظاہر دیکھا جاۓ تو نادیہ خان نے اِس تمام دورانیے میں ایسا کوٸ لفظ یاں لہجہ نہیں استعمال کیا کہ جس پر اعتراض اٹھایا جاۓ کہ یہ تزلیل آمیز یاں ہتک آمیز تھا۔ لیکن جناب نکالنے والےتو بال کی بھی کھال نکال لیتے  Vlog ہیں یہ تو پھر بھی ایک سیلبرٹی کی بناٸ   تھی۔ ١٣ جنوری کی اپلوڈ کی ویڈیو پر شرمیلا جی کی جانب سے اعتراض اٹھایا جاتا ہے  اور بقول نادیہ خان کے شرمیلا جی نے ان کو  کہا ہے کہ  وہ ایک بے شرم عورت ہیں اور یہ کہ  نادیہ کو ایک عورت کامذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ مذید بتایا کہ

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معاملہ  بھی اس سال خبروں میں گردش کرتا رہا۔ جس وج

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ جن کا ذکر آسمانوں میں کیا جاتا ہے ان کے لیے بے ادبی مسلمان کیسے سہے؟  جن کا نام بھی بنا درود (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لینا منع ہے ان کی شان میں گستاخی برداشت کرنے کا مشورہ کیسے برداشت کیا جاۓ؟ گستاخی و بے ادبی کو اظہارِ راۓ کی آزادی کہہ کر معمولی بات گردانی جاۓ اور ہم کو اگنور کرنے کا درس دیا جاۓ تو اس پر خاموش کیسے رہا جاۓ؟  چوٹ دِل پر لگاٸ ہے ایک دو نہیں کھربوں مسلمانوں کے دلوں پر۔ دیگر مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصے سے لکھنے کا سلسلہ ترک کیاہوا تھا۔ آج  فیس بک پر کراچی کے ایک سپر اسٹور Bin Hashim Pharmacy And SuperStore کے پیج پر  ان کی پوسٹ  دیکھی جس میں ان کی طرف سے فرانس کی مصنوعات کے باٸیکاٹ کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ دل نےکہا کہ اس دکھ کی گھڑی میں کچھ لکھا جاۓ۔   لوگ لاکھ کہیں کہ اشیاء کے باٸیکاٹ سے کچھ نہیں ہوتا ہمارے زرا سے احتجاج سے کیا ہوگا؟  بیکار اور بے مقصد کام ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ہمیں یہ عمل بے معنی لاحاصل اور بے مقصد لگے گا۔ لیکن یہ عمل معمولی نہیں ثابت ہوگا۔ ملاٸشیا کی تاجر برادری نے فیصلہ کیا ہے کہ جو سالانہ فرانس سے ١٠٠ بلین ڈالر کی اشیاء  خریدی جاتی