Skip to main content

پیرِ کامل ﷺ





ہمارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ وسلم
 امّت کے لیے سراپا رحمت اور رہبر و رہنما ہیں۔
آپ کی شخصیت امّت کے لیے ایک پیرِ کامل کی سی ہے۔
آپ صلی اللّہ علیہ وعلیہ وسلم  نے عورت کو رشتوں  کے اعتبار سے جس احسن طریقے سے عزّت و توقیر بخشی ویسی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

ماں کےلیے پوچھے گۓ سوال کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے کہ جواب میں ٣ جگہ ماں کو درجہ دیا ,کہ تم پر سب سے زیادہ حق تمھاری والدہ کا ہے۔

ماں کے لیے فرمایا کہ اس کے قدموں تلے اولاد کی جنت ہے۔
مزید فرمایا گیا کہ کاش میری ماں زندہ ہوتی میں عشاء کی نماز ادا کر رہا ہوتا میری ماں مجھے  پکارتی میں پہلے جا کر اپنی ماں کی بات سنتا۔ 

بیوی
آپ صلی اللّہ علیہ وسلم کے ایک سے زاٸد نکاح تھے مگر تمام ازواج میں کمال کا انصاف فرماتے۔
فرمایا خدیجہؓ  اگر تم میری جلد مانگتی تو میں وہ بھی اتار کے دے دیتا۔
حضرت خدیجہؓ کےلیے فرمایا کہ دنیا میں دو لوگوں کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتا خدیجہ اور ابو بکر کے۔
مزید فرمایا اس کے بارے میں برا نہ کہا کرو خدیجہ مجھے بہت عزیز ہے۔
 جب آپ ؃ سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ کس سے محبت رکھتے ہیں تب فرمایا عاٸشہ سے دوبارہ پوچھا کہ اسکے بعد تو فرمایا عاٸشہ کے باپ سے۔
یہاں بھی نسبت بیوی کے نام سے جوڑ کر اظہارِ محبت کیا۔
ایک سفر میں امّاں عاٸشہ کا ہار گم ہوگیا تو کتنے ہی گھنٹے قافلہ رکواۓ رکھ کر ہار تلاش کیا گیا۔

بیٹی:
آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے بیٹی کے والد کی حیثیت میں بھی رہتی دنیا تک کے امتیوں کے لیے مثال قاٸم کی کہ میرے جیسے شفیق باپ بنو اور بیٹیوں کو عزت اور مان دو۔
آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔

جب پیاری بیٹی  ملنے آتیں تو آپ؃  کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے۔
اپنی کملی مبارک اپنے کاندھے  سے اتار کر بیٹی کے بیٹھنے کے لیے فرش پر بچھا دیتے۔

بہن

بہن کی صورت تھی تو فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی پیغام بھجوا دیا ہوتا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ
غزوہ بدر کے موقع پر آپ؃  کی رضاٸی ماں داعی حلیمہ کی بیٹی حضرت شیما ؓ نے جب سنا کہ محمد صلی اللّہ علیہ وعلیہ وسلم نے انکے بھی علاقے کے قیدی پکڑے ہیں تب بھاٸ کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں چمک گٸیں اور قیدی چھڑوانےخود بھی چل کر نبی پاک صلی اللّہ علیہ وعلیہ وسلم کےپاس تشریف لاٸیں۔ آپ؃  نے بہن کودیکھ کر بے ساختہ فرمایا کہ  بہن کدھر آٸ ہو؟  کہا کہ حضور آپ نے ہمارے بندوں کو پکڑا ہے انہیں چھڑانے آٸ ہوں۔ 
رسول اللّہ ؃نے فرمایا بہن تم نے کیوں زحمت کی مجھےپیغام بھیج دیتی میں چھوڑ دیتا۔ قیدی رہا کردیے 
اور چندگھوڑے اور کچھ سامان کےساتھ بہن کو رخصت کیا۔


عورت اور بچوں کی تکلیف کی اتنی پرواہ  فرماتے کہ دورانِ نماز عورتوں کی طرف کسی کے بچے کی رونے کی جو آواز آتی تو  آقاِ دو جہاں صلی اللّہ علیہ وسلم نماز مختصر کردیتے۔

ایسی محبت اور عزت سے بھرپور برتاٶ کی مثال ہمیں کہیں اور سے کبھی نہیں ملےگی۔
یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ وعلیہ وسلم کے اطوار ہیں جن پر چلنےکا انہوں نے حکم دیا اور طریقہ بھی بیان  فرمایا۔
کہ عورتوں کے ساتھ کس رشتے میں کس طرح سے پیش آنا ہے۔
اللّہ ہمیں ہمارے حصّے کے رشتے احسن طریقے سے نبھانے کی  توفیق دے آمین۔

Comments

  1. Hi there.
    I hope you are good. If you want more profile views and more traffic on your blog then don't worry. I've a very good and cheap offer for you. Contact me via email
    alishoy91@gmail.com

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...