Skip to main content

اسلامی تہذیب اور ادب


ادب براۓ زندگی
زندگی براۓ بندگی
زندگی بے بندگی
شرمندگی شرمندگی

کہتے ہیں ادب بڑی کمال کی چیز ہے جو انسان کو ان بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے  جن کو پانے کے لیے عام طور پر بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔
  
ایک ڈاکٹر صاحب کا واقعہ ہے کہ وہ اکثر نسخے پر ڈسپنسر کے لیے لکھتے کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے۔
اگر کبھی کوٸ مریض اس بابت پوچھتا کہ جی آپ نے پیسے لینے سے منع کیوں کیا تو وہ ڈاکٹر یہ جواب دیتے کہ
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو تو میں ان سے پیسے لوں؟
تمام عمر انہوں نے ان مقدس ہستیوں کے ھم نام لوگوں سے پیسے یاں فیس نہیں لی۔ 
یہ ان کے ادب اور محبت کا انداز تھا

( آج ایسا کیا جاۓ تو سوال ہوگا کہ جی اس فعل کو  قرآن و حدیث سے ثابت کرو)

امام احمد بن حنبل نہر کے کنارے  وضو فرما رہے تھے۔
کہ ان کے ایک شاگرد بھی وضو کرنے آجاتے ہیں لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑے ھوے اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گۓ
پوچھنے پر کہا کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آرہا ہے مجھے شرم آٸ کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کریں۔ 

(آج ایسا ہوتا تو شرک کے الزام لگ رہے ہوتے)

رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ سے  کسی نے سوال  پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟
عمر پوچھنا مقصود تھا۔

آپؓ نے جواب دیا کہ بڑے تو
رسول اللہ ﷺ ہی ہیں البتہ میں تھوڑا پہلے پیدا ہوگیا تھا۔

(قربان جاٶں چچا کے بھتیجے سے ادب کے) 

مجدد الف ثانی بیت الخلا جاتے ہوۓ یہ احتیاط کرتے کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی سیاہی ہاتھ پر لگی نہ رہ جاۓ ۔
 
(آج ایسا ہورہا ہوتا تو کتابوں سے دلاٸل مانگے جاتے اس فعل کے یاں کتابیں رکھ رکھ کر غلط ثابت کیا  جارہا ہوتا  اس فعل کو)

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ہے اور یہ کوٸ برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوٸ جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی۔
کیوں کہ رسول اللہ ﷺ  کا فرمان ہے کہ  وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور  ہمارے 
چھوٹوں پہ شفقت نہیں کرتا۔
(ابو داٶد)

آج تو یہ حال ہے کہ چھوٹا بڑا کچھ نہیں ,ہاں جو ذیادہ تیز زبان چلا کر چپ کرادے وہ اتنا ہی بڑا طرم خاں ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ پیغمبرانِ دین  , آلِ نبی ﷺ اور
  اصحابِ  نبی ﷺ کی تعظیم اور ادب کا دینی فراٸض سے کوٸ تعلق نہیں  نعوذوباللہ

ابھی ذیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا, ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور ان کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ اور اللہ انہیں نوازتا بھی تھا۔
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے رزق میں  اضافہ فرماٸیں وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے علم میں اضافہ کرے تو وہ اپنے استاد کا ادب کرے۔

ماں باپ کے ادب کی ہی طرح  استاد کا ادب بھی اسلامی تعلیمات کی بنیادی خصوصیت ہے اور اس کا سلسلہ بھی صحابہ ؓ کے دور سے چلتا چلا آرہا ہے۔

حضورِ اقدس ﷺ کے چچا زاد ابنِ عباس ؓ جب کسی صحابیِ رسول سے حدیث حاصل کرنے جاتے تو جا کر ان کے دروازے پربیٹھے رہتے کہ وہ صحابیؓ خود کسی کام سے باہر آٸیں گے تب ان سے حدیث پوچھیں گے۔
یعنی ان کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی بے ادبی سمجھتے۔ 
چاہے کیسا بھی موسم ہو سرد , گرم, پسینہ بہہ رہا ہوتا ہو یاں لو چل رہی ہوتی مگرآپ باہر بیٹھے انتظار فرماتے رہتے۔
وہ صحابیؓ شرمندہ ہوتے کہ آپ ؓ تو رسول اللہ ﷺ کے پاک گھرانے سے ہیں مجھے خود بلا لیتے
 تو جناب ابنِ عباسؓ جواب دیتے کہ میں شاگرد بن کر آیاہوں  یہ آپ کا حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کام کے سلسلے میں آپ کو پریشان نہ کروں۔
 
اور آج یہ حال ہے کہ ان اصحابؓ کے لیے کہ جنہوں نے احادیثِ مبارکہ کے لیے اتنی سخت مشقتیں کاٹیں ,ان پر لعنت ملامت کی جاتی ہے, درجے بانٹے جاتے ہیں کہ کون زیادہ کون کم کون اول کون آخر کس کو پہلے ہونا چاہیے تھا کسے بعد میں کون حق پر کون منافق کون جنتّی کون جہنمی ۔
نعوذوباللہ

استاد شاگرد کےدرمیان ادب کا یہ رواج کتنی ھی مدت ھمارے نظامِ تعلیم میں موجود رہا بلکہ مدارس میں تو یہ آج بھی اللہ کے فضل سے برقرار ہے  کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ہوتا وہ بیٹھتے اور ان کے شاگرد چل کر ان کے پاس آتے۔بجاۓ اس کے کہ استاد صاحب شاگرد کے پاس جاتے۔



اسلامی تہذیب کی گرفت کمزور ہوٸ تو ادب آداب کی قدر میں بھی کمی واقع ہوگٸ اور برابری کا ڈھول پٹنا شروع ہوگیا اب بچے , بڑے , ماں باپ, بہن بھاٸ , میاں بیوی  سب برابر کے ہوگٸے اور اس طرح وہ خرابیاں وجود میں آٸیں جو مغرب میں راٸج تھیں۔
اسلام  مساوات کا قاٸل ہے لیکن دوسری طرف دینِ اسلام ہمیں ادب کی بھی تعلیم سکھاتا ہے۔
رشتوں کا , اپنے بڑوں کا , استاد کا بھاٸ کا ان سب کا اپنا مقام اور مرتبہ ہے اور اس کے لحاظ سے ادب کرنا  تہذیب کی خوبصورتی ہے۔

مغربی  تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار اسی راستے سے ہوا ہے

جب کہ مسلمان عریانیت اور فحاشی کو سمجھ رہے ہیں۔
عریانی اور فحاشی کا برا ہونا سب کو سمجھ آتا ہے
اس لیے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ہے۔
جب کے اس کے برعکس محبت کے اور رشتوں کے ادب آداب کی اہمیت کا سمجھ میں آنا مشکل ہے۔

اس لیے یہ قدرِ تیزی سے رو بہ زوال ہے
 اب تو یہ صورتِ حال ہے کہ کون سا ادب کہاں کا ادب؟ 
کیا بڑا اور کیا چھوٹا۔
آج یہ حال ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے نفرت سکھا رہے ہیں ادب تو دور کی بات ہوگٸ۔
بے مقصد اور بے جا سوالات کے نام پر امّت میں انتشار پھیلایا جارہا ہے۔ ایک دوسرے سے آپس میں اختلافات کو ہوا دی  جا رہی ہیں۔
تاریخ کے گڑھے مردے نکال نکال کر درحقیقت گستاخیاں اور بے ادبیاں سکھا رہے ہیں۔
جو نہ فراٸض میں شامل ہیں نہ واجبات میں ان کو دین کا اہم جز بنا کر امّت کو گمراہ یا جارہا ہے۔ 
ستم ظریفی  کہ اس کام کو حق اور علم کا نام دے 
رہے ہیں۔
نعوذوباللہ
آج اس بے ادب افراد سے بھرے معاشرے کا صرف اللہ ہی حامی و ناصر ہے۔

 

Comments

  1. Bohat aala.bihat aala.ap ki ye kawish bohat achi hai.Allah iski jaza de apko

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...