Skip to main content

عبادت گاہیں Places of worship




پاکستان کیوں بنا تھا؟

پاکستان بننے کی وجوہات کے بارے میں سوال کیا جاۓ تو آپ کے ذہن میں کیا وجوہات آٸیں گی؟؟ 
ایک آزاد خود مختار مملکت جہاں صرف مسلمان ہی نہیں کسی بھی مذہب کے ماننے والے آزادی سے جی  سکیں جہاں انہیں  ہر طرح کی مذہبی آزادی ہو۔
1947
 میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے
  پاکستان کو ووٹ کیوں دیا؟
 انہوں نے ہندوستان کے بدلے پاکستان  کو اپنا گھر بنانا کیوں پسند کیا؟ اس لیے تاکہ وہ یہاں بھی آزاد  شہری کی حیثیت سے پاکستانی بن کر رہ سکیں۔
 جہاں انھیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہو۔
  قاٸدِ اعظم نے پاکستان کے ہر شہری کو برابر درجہ
 دیا۔ 
 
دینِ اسلام ایک خداِ واحد کی عبادت کی تلقین کرتا ہے۔
اور دوسرے مذہب کےافراد پر اپنے عقاٸد بدلنے اور اسلام میں داخل ہونے کے لیے کسی قسم کی زور زبردستی یاں دباٶ نہیں ڈالتا۔
اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے۔ ہر فرد کے ساتھ مکمل انصاف کرنے کی تعلیم دینے والا دین کہ جس کا کوٸ پہلو ایسا نہیں کہ جس میں انسانیت کی منافی ہو۔
آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں اپنے لیے مذہبی آزادی کی خواہش کرنا آپ کی لازمی خواہش ہوگی ۔
تو جناب یہ ہی خواہش دوسرے مذہب کا ماننا والا بھی کرے گا۔
اس پر ہم اعتراض کس حق سے کریں؟

ایک اور بات بھی بہت شٸیر کی جارہی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ نہیں بنواٸ تو اس لیے پاکستان میں بھی یہ کام جاٸز نہیں۔
 ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ  نجران کے عیساٸیوں کا وفد مدینہ شریف آیا۔
آپ ﷺ نے اس وفد کو مسجدِ نبوی میں ٹھرایا اور ان مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنے طریقے کے مطابق اپنی عبادت مسجد میں ادا کرلیں, لہذا ان افراد نے مسجدِ نبوی میں ایک طرف مشرق کی جانب رخ کر کے اپنی عبادت کی ۔
دینِ اسلام کی بڑاٸی کا اندازہ لگاٸیے کہ یہ فراغ دلی  ہے یاں تنگ نظری؟ 
اور اس وقت نۓ نۓ آۓ دین کو اس عمل سے جب
خطرہ محسوس  نہ ہوا , آج تو ماشاءاللہ دینِ اسلام کو آۓ عرصے گزر چکے ہیں۔تو اب خطرہ کیسے؟ 
دینِ اسلام نے اقلیتوں کے حقوق بھی واضح فرماۓ ہیں۔
نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ 
خبردار! جس کسی نے کسی معاہد اقلیتی فرد پر ظلم کیا یا اس کا حق غضب کیا یا اس کو استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر 
 اس سے کوٸی چیز لی تو بروز  قیامت میں اس کی طرف سے مسلمان کے خلاف جھگڑوں گا۔

یہ ہے دینِ اسلام اور اس کے اصول۔
جو دین قیدیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے وہ کسی غیر مسلم اقلیت کو اس کی عبادت گاہ فراہم کرنے سے کیوں منع کرے گا؟ 

ایک مسلمان نے اہلِ کتاب کو قتل کردیا۔ مقدمہ رسول ﷺ کےحضور لایا گیا آپ نے فرمایا کہ میں اہلِ ذمہ کا حق ادا کرنےکا سب سےذیادہ ذمہ دار ہوں لہذا قاتل کو اس کے فعل کے مطابق سزا دی گٸ۔

دینِ اسلام کی یہ حکمتِ عملی ہے کہ اپنی سرزمین پر دوسروں کو ان کے مذہب اور عقیدےکے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دیتا ہے۔
دیگر خوبیوں کی طرح یہ ایک خوبی بھی اسلام کو دوسرے مذاہب سے منفرد ثابت کرتی ہے۔
غیر مسلم وفد جب رسول صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آتے آپ خود ان کی میزبانی کےفراٸض انجام دیتے۔ 
اپنی مساجد تک میں انہیں جگہ دینے کی مثال آپ نےقاٸم کی اور آج ہماری تنگ نظری کس حد تک آگے نکل گٸ ہے کہ اپنے علاوہ کسی اور کی مذہبی آزادی برداشت نہیں ہوتی۔۔
ایسے ملک میں جہاں 96 فیصد آبادی مسلمان ہو وہاں سمجھ نہیں آتا کہ مندر, شمان گھاٹ ,گرجا گھر, یاں گردوارہ بننے سے ہمارے دین کی ساکھ کو کیسے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟


اگر مسلمان غیر مسلم ملک میں  ہیں تو کیا انہیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد درکار نہیں ہوگی ؟ اور آگے چلیں تو غیر مسلم دیس میں اپنے بچوں کو اپنےاصل سے جوڑے رکھنے کے لیے کوٸ ایسا ادارہ  یاں سینٹر یاں اسکول بھی چاہیے ہوگا جہاں اپنے بچوں کو دین کی تعلیم سکھا سکیں۔
اور آگے چلیں تو تدفین کے لیے  اس غیر مسلم ملک میں علیحدہ قبرستان کی بھی ضرورت ہوگی ۔ 
یہ ہوگٸیں انسان کی  مذہبی ضروریات جن کا مطالبہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کرنا ہم اپنا جاٸز حق سمجھتے ہیں۔
سوچیں وہاں موجود اکثریت شور مچاتی سڑکوں پر نکل آۓ کہ جی ہمارا مذہب مسلمانوں کی ان  مساجد اور مدارس سے خطرے میں پڑ رہا ہے ؟ 
پھر؟ 
مسلمانوں کو محروم کردیا جاۓ ان چیزوں سے؟
غیر مسلم دیس میں جمعہ, عیدین   گھروں میں ادا کرنا پڑ جاٸیں؟
ہمارے جذبات کس حد تک مجروح ہوں گے؟
تو جناب جب یہ ہی مطالبات آپ کی اکثریت والے ممالک میں پاۓ جانے والے اقلیتیوں کی جانب سے ہوں تو ہمیں اتنی تکلیف کیوں؟؟
نعوذوباللہ  کیا دینِ اسلام اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ ہمیں ان مندر  گرجا گھروں اور گردواروں سے خطرہ لاحق ہو گا؟
جی بالکل نہیں ہمارا دین قتعاََ کمزور نہیں بلکہ بہ حیثیت مسلمان ہمارے کردار اتنےکمزور ہوچکے ہیں ,اتنے گِر چکے ہیں کہ ہمیں ان کی تعمیرات سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔
جب دوسرے اپنے ممالک میں قاٸم مساجد و مدارس یاں اسلامی سینٹرز کی موجودگی سے  اپنا دین بچا رہے ہیں تو ہمیں کیوں اتنے ڈر لاحق ہیں؟ 
 کیوں کہ آج کے مسلمان  کو تحفظات زیادہ ہیں اور عمل کم۔
ہندوستان اپنی تنگ نظری اور چھوٹے پن کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوا کیوں کہ ان کا رویہ یہ ہی تھا کہ اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہ کرنا ۔

کسی کی مذہبی عبادت گاہ کے قیام سے ہمارے ہاں لوگ شور مچانا شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ جاٸز
 نہیں ہے ۔
عوام الناس کے جزبات بھڑکنا بھی سمجھ سے باہر ہیں۔ 
دین خطرے میں پڑجاتا ہے, ایمان جاگ جاتا ہے وہ ہی ایمان روز مرہ کے روٹین میں بے ایمانیاں کرتے وقت بہت گہری نیند سو رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب نے دیکھا کہ اس عالمی وباء کے وقت جب ساری دنیا انسانیت کو بچانے میں مصروف تھی  ہمارے ہاں ان ہنگامی حالات میں جسے جہاں جتنا موقع ملا اس نے موقع سے پورا فاٸدہ اٹھایا ۔ضرورت کی ادوایات مہنگی کی جارہی  تھیں, ذخیرہ اندوزی عروج پر تھی, پلازما تک فروخت کر ڈالے۔
تب ہمارا  ایمان خطرے میں نہیں پڑ رہا تھا؟ 
تب ہمیں دین خطرے میں پڑتا کیوں محسوس نہ ہوا؟

پاکستان میں موجود لاکھوں دوسرے مذاہب کے افرادجو یہاں مقیم ہیں وہ اپنے لیے عبادت گاہوں کا مطلبہ بھی کریں گے۔
دینِ اسلام کےاصولوں کے مطابق ان کا یہ مطالبہ پورا کیا جانا چاہیے۔
 کیوں کہ دین نے اس سے منع بھی نہیں فرمایا۔
اس خطّے کے علاقے ہزاروں سال قدیم ہیں  جنہیں مسلمانوں کی آمد سے  بھی بہت عرصہ پہلے دوسرے مذہب کے ماننے والوں نے آباد کیا تھا ۔
اقلیتوں/غیر مسلموں کے ساتھ رسول اللہ کے حسنِ سلوک سے کتابیں بھری ہوٸ ہیں۔
آپ ﷺ کے پاس غیر مسلم بھی اپنی امانتیں رکھواتے آپ ﷺ کے کیے گۓ انصاف  اور فیصلے کی حمایت کرتے۔
فتح مکّہ کا موقع آپ ﷺ کی عظمت کی ایک بہت بڑی مثال ہے کہ آپ نے غیر مسلموں کےساتھ کس قدر  
 بہترین سلوک فرمایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
اور ہم ان کے امّتی, خود جو عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں لیکن ان کی سنتوں پہ عمل کرنے سے دور بھاگتے ہیں ۔
ابھی ہم دنیا کےسامنے کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں کہ کشمیر کو آزاد کیا جاۓ, اگر ہم اپنے ہاں اقلیتوں کے لیے اتنی تنگ نظری دکھاٸیں گے  تو ہم کس منہ سے کشمیر کی آزادی مانگے گے ۔
ہم اپنے لیے ہر طرح کی مذہبی آزادی کے خواہاں ہیں لیکن اپنے ملک میں دوسروں کی مذہبی آزادی ہمیں بہت کھٹکتی ہے۔

اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے قیام  کا جو طریقہ کار ہمارےدین نےاقلیتوں کو فراہم کیا ہے اس  کے عین مطابق عمل ہونا چاہیے۔ اور ویسے بھی یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل میں پیش کیا جا چکا ہے جہاں علماء کرام کی مشاورت سے فیصلہ کر کے حکومت کے سامنے رکھا جاۓ گا کہ اس پر کس طرح سے عمل کیا جانا چاہیے۔  
اگر ہمیں یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں گردوارے, مندر , گرجا گھروں  کی تعمیر  سے ہمارے دین کو خطرہ ہےتو
جناب برا نہ مناٸیے گا کیوں کہ خطرہ ان سے تو ہرگز نہیں بلکہ خطرہ ہمارے دین کو خود ہم سے اور ہماری منافقت اور دوغلی پالیسی سے ہے ۔




Comments

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...