Skip to main content

احتیاط لازم ہے۔۔!!


  یہ زمین مقدس ہے          ماں کے پیار کی صورت


پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے 

یہ جملہ ہم حکمرانوں کی زباں سے عرصہِ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔

لیکن اب پچھلے دو سال سے کورونا سے گزرتے حالات ہم سب کے سامنے ہیں  اس حساب سے مشکل دور تو واقعی ہے۔

کون کب بیمار پڑ جاۓ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

جو بچا ہوا ہے

سو غنیمت ہے۔

دو سال میں ہم کو اس بات کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اب اس ہی صورتِ حال میں زندگی گزارنی ہے۔اب یہ ہم سب کے ہاتھ میں ہےکہ ہم اس کی صورت سنبھالتے ہیں یاں مذید  بگاڑتے ہیں۔

غیر ضروری رش والی جگہوں پر جانا

ماسک کا استعمال  نہ کرنا۔

مارکیٹس میں زیادہ اوقات صرف کرنا۔

تفریحی مقامات پر حد سے زیادہ آنا جانا۔

ہجوم قاٸم کرنے کی وجہ بننا۔


اگر حکومت بازار اور تفریحی مقامات کھول رہی ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہم ان مقامات پر  زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں؟

 جو کام ایک انسان کے جانے سے ہو سکتا ہے وہاں  6 افراد مل کر کیوں جاٸیں؟ جیسے جو  گھر کا سامان  یاں سودا سلف ایک یاں دو افراد بھی لا سکتے ہیں تو پورا گھرانہ کیوں  اسٹورز میں پہنچ کر رش اور ہجوم لگاتا ہے؟ 

جو چیزیں ہم گھر پر منگوا کر بھی کھا سکتے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ ہم ہوٹلوں میں جا کر رش لگاٸیں؟

کیا کچھ عرصہ ہم خود کو غیر ضروری جگہوں پر جانے سے  روک نہیں سکتے؟

 جب لاک ڈاٶن نافذ ہوتا ہے تب بھی تو یہ تمام کام ہم ترک کردیتے ہیں نا تو جب صورتِ حال نارمل ہوتی ہے تب کیوں ہم غیر ضروری آنا جانا ترک نہیں کرتے؟ 

کیا ہم سختی کی جانے پر ہی احتیاط کریں گے؟ 

خود سے ہم کیوں اپنا ، دوسروں کا اور اس ملک کا احساس نہیں کرتے؟



جب ہم نے دو سالوں میں کرونا کی صورتِ حال کا بہ خوبی اندازہ لگا لیا ہےتو کیا ہم خود احتیاط نہیں کر سکتے؟

جس کو بیماری محسوس ہورہی ہے وہ دوسروں تک پھلانے کے بجاۓ گھر سے باہر نکلنے سے گریز نہیں کرسکتا؟ 

(اگر بہت مجبوری ہے تو یہ دیگر بات ہے) 

ماسک کا استعمال کر کے دوسروں کو اس سے محفوظ رکھنا مشکل کام تو نہیں۔


 

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بہت بگڑی ہوٸ صورتِ حال سے خود کو اور ملک کو بچانے کے لیے ہم کو ہی کوشش کرنی ہوگی سارا سال مکمل لاک ڈاٶن  ہم نہیں افورڈ کر سکتے۔ 

باقی تمام کام بھی جینے کے لیے ضروری ہیں۔ 

اس ہی بے احتیاطی کے سبب  دو سال ہونے کو آۓ ہیں کہ تعلیمی ادارے بند ہیں بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑا ہے۔ 

لیکن عوام کا ایک بڑا حصّہ خود کو احتیاطی تدابیر سے آزاد سمجھتا ہے اور  جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب حکومت سختی کرتی ہے مکمل لاک ڈاٶن کی نوبت آجاتی ہے پھر ساری قوم بھگتّی ہے۔ مکمل لاک ڈاٶن میں نقصان سب کا ہی ہوتا ہے بالخصوص غریب اور دیھاڑی دار طبقے کا۔

تو کیا ضروری ہے کہ یہ نوبت لاٸ جاۓ؟ 

 

یہ بات مان لیجیے کہ ہماری ہی

 بے احتیاطی اس وبا۶  کو قابو  سے باہر کرتی ہے اور ہماری ہی احتیاط ہم کو کورونا کی بگڑتی اور بےقابو صورتِ حال سے بچا سکتی ہے۔

تو اب وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔

احتیاط کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال کریں۔

اب بہت ہوگیا ہے

خدارا ان باتوں پر غور کریں۔

غیر ضروری آنا جانا ملنا ملانا گھومنا پھرنا کم کریں۔

اگر کسی گھر میں آپ کو معلوم ہے کہ کوٸ وباٸی مرض میں مبتلا ہے تو اس جگہ جانے سے گریز کریں۔

اور اگر کسی کو اپنی طبعیت پر شبہ ہے کہ وہ اس بیماری کی لپیٹ میں ہے تو وہ بھی خود کو دوسروں سے فاصلے پہ رکھے۔ 

خود کو اپنے گھر کو محلّے کو صاف رکھیں ۔ باہر سے آکر لازمی منہ ہاتھ  دھوٸیں ۔

اس بگڑتی صورتِ حال کو مذید بگڑنے ہی نہ دیں ورنہ نقصان ہم سب کا اور ہمارے ملک کا ہی ہے۔

احتیاط کیجیے۔

اس بارے میں زرا نہیں پورا سوچیے۔




 

Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...