پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے
یہ جملہ ہم حکمرانوں کی زباں سے عرصہِ دراز سے سنتے آرہے ہیں۔
لیکن اب پچھلے دو سال سے کورونا سے گزرتے حالات ہم سب کے سامنے ہیں اس حساب سے مشکل دور تو واقعی ہے۔
کون کب بیمار پڑ جاۓ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
جو بچا ہوا ہے
سو غنیمت ہے۔
دو سال میں ہم کو اس بات کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اب اس ہی صورتِ حال میں زندگی گزارنی ہے۔اب یہ ہم سب کے ہاتھ میں ہےکہ ہم اس کی صورت سنبھالتے ہیں یاں مذید بگاڑتے ہیں۔
غیر ضروری رش والی جگہوں پر جانا
ماسک کا استعمال نہ کرنا۔
مارکیٹس میں زیادہ اوقات صرف کرنا۔
تفریحی مقامات پر حد سے زیادہ آنا جانا۔
ہجوم قاٸم کرنے کی وجہ بننا۔
اگر حکومت بازار اور تفریحی مقامات کھول رہی ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہم ان مقامات پر زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں؟
جو کام ایک انسان کے جانے سے ہو سکتا ہے وہاں 6 افراد مل کر کیوں جاٸیں؟ جیسے جو گھر کا سامان یاں سودا سلف ایک یاں دو افراد بھی لا سکتے ہیں تو پورا گھرانہ کیوں اسٹورز میں پہنچ کر رش اور ہجوم لگاتا ہے؟
جو چیزیں ہم گھر پر منگوا کر بھی کھا سکتے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ ہم ہوٹلوں میں جا کر رش لگاٸیں؟
کیا کچھ عرصہ ہم خود کو غیر ضروری جگہوں پر جانے سے روک نہیں سکتے؟
جب لاک ڈاٶن نافذ ہوتا ہے تب بھی تو یہ تمام کام ہم ترک کردیتے ہیں نا تو جب صورتِ حال نارمل ہوتی ہے تب کیوں ہم غیر ضروری آنا جانا ترک نہیں کرتے؟
کیا ہم سختی کی جانے پر ہی احتیاط کریں گے؟
خود سے ہم کیوں اپنا ، دوسروں کا اور اس ملک کا احساس نہیں کرتے؟
جب ہم نے دو سالوں میں کرونا کی صورتِ حال کا بہ خوبی اندازہ لگا لیا ہےتو کیا ہم خود احتیاط نہیں کر سکتے؟
جس کو بیماری محسوس ہورہی ہے وہ دوسروں تک پھلانے کے بجاۓ گھر سے باہر نکلنے سے گریز نہیں کرسکتا؟
(اگر بہت مجبوری ہے تو یہ دیگر بات ہے)
ماسک کا استعمال کر کے دوسروں کو اس سے محفوظ رکھنا مشکل کام تو نہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بہت بگڑی ہوٸ صورتِ حال سے خود کو اور ملک کو بچانے کے لیے ہم کو ہی کوشش کرنی ہوگی سارا سال مکمل لاک ڈاٶن ہم نہیں افورڈ کر سکتے۔
باقی تمام کام بھی جینے کے لیے ضروری ہیں۔
اس ہی بے احتیاطی کے سبب دو سال ہونے کو آۓ ہیں کہ تعلیمی ادارے بند ہیں بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑا ہے۔
لیکن عوام کا ایک بڑا حصّہ خود کو احتیاطی تدابیر سے آزاد سمجھتا ہے اور جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تب حکومت سختی کرتی ہے مکمل لاک ڈاٶن کی نوبت آجاتی ہے پھر ساری قوم بھگتّی ہے۔ مکمل لاک ڈاٶن میں نقصان سب کا ہی ہوتا ہے بالخصوص غریب اور دیھاڑی دار طبقے کا۔
تو کیا ضروری ہے کہ یہ نوبت لاٸ جاۓ؟
یہ بات مان لیجیے کہ ہماری ہی
بے احتیاطی اس وبا۶ کو قابو سے باہر کرتی ہے اور ہماری ہی احتیاط ہم کو کورونا کی بگڑتی اور بےقابو صورتِ حال سے بچا سکتی ہے۔
تو اب وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔
احتیاط کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال کریں۔
اب بہت ہوگیا ہے
خدارا ان باتوں پر غور کریں۔
غیر ضروری آنا جانا ملنا ملانا گھومنا پھرنا کم کریں۔
اگر کسی گھر میں آپ کو معلوم ہے کہ کوٸ وباٸی مرض میں مبتلا ہے تو اس جگہ جانے سے گریز کریں۔
اور اگر کسی کو اپنی طبعیت پر شبہ ہے کہ وہ اس بیماری کی لپیٹ میں ہے تو وہ بھی خود کو دوسروں سے فاصلے پہ رکھے۔
خود کو اپنے گھر کو محلّے کو صاف رکھیں ۔ باہر سے آکر لازمی منہ ہاتھ دھوٸیں ۔
اس بگڑتی صورتِ حال کو مذید بگڑنے ہی نہ دیں ورنہ نقصان ہم سب کا اور ہمارے ملک کا ہی ہے۔
احتیاط کیجیے۔
اس بارے میں زرا نہیں پورا سوچیے۔
Comments
Post a Comment