نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہیں
ھُمَا رَیحَانَتَايَ مِنَ الدُّنیَا ۔
حسن و حسین دنیا کے گلشن میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں۔
(بخاری)
اس حدیث ِ مبارکہ سے ان دو شہزادوں کی عظمت، توقیر مقام و مرتبہ اور بڑاٸ کااندازہ لگاٸیے ۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ حسن و حسین جنّت کے جوانوں کے سردار ہیں جو ان سے محبت کرے گا اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان سے بغض رکھے گا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
یہاں سے اندازہ لگاٸے کہ ان شہزادوں کی محبت اگر درمیان سے ہم نے نکال دی تو کیا رہ جاۓ گا؟
کچھ بھی نہیں۔
ان احادیث سے ان حضرات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان سے محبت رکھنا ہر کلمہ گو مسلمان پر لازم ہے بےشک۔
اب بات کرتے ہیں واقعہ کربلا کی میدانِ کربلا میں نواسہِ رسول ﷺ جگر گوشہِ بتولؓ کی ان بے دریغ قربانیوں کا مقصد کیا تھا؟ آپ کے لیے قتعاََ نہ ممکن تو نہ تھا خود کو اور اپنے تمام گھرانے کی زندگیاں محفوظ کرنا۔
لیکن آپ نے ان مشکلات کا سامنا کیوں کر کیا؟
ناموسِ دینِ محمدیﷺ کی بقا کے لیے۔
اپنی جان دینے کو چنا لیکن حق کا سودا کرنا گوارا نہ کیا ۔
نواسے نے نواسے ہونے کا حق تو ادا کرنا ہی تھا ۔
اس سے ہم کیا درس حاصل کرتے ہیں ؟
حق و باطل میں سے کس کو چننا ہے؟
اپنے مفاد کو یاں حق کو بھلے پھر وہ ہمارے مفاد سے ہی کیوں نہ ٹکراۓ اور صرف چننا ہی نہیں ہے بلکہ اگر اس چناٶ میں اپنی عزیز ہستیوں سے ہاتھ دھونا بھی پڑتا ہے تو یہ سودا گھاٹے کا نہیں ۔
یہ سودا نفع کا ہے کیونکہ اس سودے میں دین کی بقا پنہاں ہے اس چناٶ کی منزل حق ہے پھر بھلے سفر میں کانٹے مقدر بنیں یاں نیزے، بھالے ،تیر ،نشتر۔
سودا تو حق کا ہے پھر کیسے باطل کے آگے جھک جاٸیں جو سر صرف اللہ کے آگے جھنکے کے لیے بنا ہے اس کو کیوں ظالم کے آگے جھکاٸیں؟
امام حسین کی یہ جنگ صرف یزید کے خلاف نہیں تھی بلکہ باطل کے تمام تر نظام کے خلاف تھی ۔
کہ جہاں بھی یزیدیت نظر آۓ ہم نے ڈٹ کر اسکی مخالفت کرنی ہے اور اس مخالفت میں اپنا گھر بار آل اولاد قیمتی متاعِ جان کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا ۔
کیا ہم اس واقعہ کا صرف ذکر کرکے یاں اپنا دل غمگین کر کے اپنا فرض پورا سمجھتے ہیں؟
کیا امام حسین کی یہ قربانی ہماری اتنی ہی توجہ کی حقدار ہے؟ کیا ہم ان کی اس قربانی کو اپنی زندگی میں عملی طور پر شامل کرتے ہیں؟ کیا ہم امتّی ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ جن کی ہم امّت ہیں ان کے پیارے نواسے نے اس دین کی بقا کے لیے کتنی بڑی قربانی پیش کی ، کیا ہم اس عظیم قربانی سے وفا کرتے ہیں ؟ وفا کرنا مشکل تو نہیں ہے۔ ان کے اس راستے کی پیروی کرکے ہم امام حسین سے اور ان کی اُس عظیم قربانی سے وفا نبھا سکتے ہیں۔
حق و باطل میں سے حق کو چن کر ہم وفا کر سکتے ہیں ناناﷺ سے بھی اور نواسےؓ سے بھی۔
کیا ہم اللہ کی راہ پر چلنے کے لیے آنے والی پریشانیوں اور رکاوٹوں کا ایسے مقابلہ کرسکتے ہیں جیسے پیارے شہزادے حسینؓ نے کیا؟
اس واقعہ کی یاد میں صرف یہ ہی سب تو کرنا مقصود نہ تھا جو آج ہو رہاہے دو دن چھٹی منا لی گھر پہ پکوان بنوا لیے اور بس۔ ؟ کیا یہ واقعہ کربلا صرف اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے؟ اتنی ہی توجہ کا طلبگار ہے جو عاشوہ پر آج کل روٹین ہوتا ہے؟
کیا ہم پر لازم نہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اہلِ بیت کی تعلیمات کو نافذ کریں، ان کی اس عظیم قربانی کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جب ہم کبھی اپنی زندگی میں ایسے مرحلے کا سامنا کریں تو ہمارا عمل بھی امام حسین ؓ والا ہو ۔
ڈر صرف رب کی ذات کا رکھنا ہے بندے کا نہیں ۔
جہاں کہیں ہمیں یذیدیت دکھاٸ دے ہم اس کے آگے سر جھکانے کے بجاۓ اس کی مکمل مخالفت کریں۔
بنا ڈرے بنا دبے بنا جُھکے
پھر نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے دیکھیے کہ امام حسینؓ / یزید
ان دونوں میں سے رہتی دنیا تک ایک ہی نام آباد ہے اور وہ ہے
اور وہ نام کون سا ہے یہ ساری دنیا جانتی ہے۔
بے شک۔
اس بارے میں زرا نہیں۔۔۔۔
!!!پورا سوچیے
حق یاں باطل ؟؟؟۔۔
اللہ ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
آمین
تحریر : مسز خالد
Comments
Post a Comment