Skip to main content

ہم کہاں جارہے ہیں؟؟؟



ہم کہاں جا رہے ہیں؟

یہ بات درست ہے کہ ہرانسان ہر فن مولا نہیں ہوتا۔ 
مختلف پیشے سے جڑے افراد اپنی اپنی فیلڈ میں مہارت رکھتے ہیں۔
لیکن کچھ شعبے  ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کام کرنے کے لیے آپ کو مختلف فیلڈز سے متعلق 
 basic knowledge 
 رکھنی پڑتی ہے ۔ اور یہ آپ کو اپنی جاب میں ماہر بناتی ہے۔
آج کے ٹی وی شوز ، مارننگ شوز اور ٹاک شوز پر بات کریں تو یہ پہلے سےکافی مختلف ہو چکے ہیں لیکن یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ یہ  دیکھنے والوں کی ترجیحات کے مطابق تیار کیے جارہے ہیں۔

 بلخصوص مارننگ شوز کی بات کریں تو ان میں  اوٹ پٹانگ گیمز ، ہنسی مذاق ، مختلف قسم کی کچھ عجیب کچھ منفرد ایکٹیویٹیز پر مبنی ہوتے ہیں۔ 
عوام کی پسند کے مطابق 👀
اب ہماری عوام کی تجیحات یہ ہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں؟ 

کچھ دن پہلے  ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر واٸرل ہوٸ ہے ، جو کہ ندا یاسر کے 4 سال پرانے شو کی ایک کلپ ہے۔ 

 NUST University جس میں

 Achivement  کے طلبہ کی  

 دکھاٸ گٸ جنہوں نے 

Electric racing car 

بناٸ تھی۔ 

  دراصل ندا اس شو میں یہ بتانا چاہ رہی تھیں کہ  

NUST University

 کے اسٹوڈنٹس کی ایک ٹیم جس کا نام  

formula electric racing,  NUST

ہے، وہ امریکہ میں ہونے والے 

formula Racing cars 

کے ایک مقابلے میں شامل ہونے جا رہی ہے۔


جو کہ امریکہ میں پورے ایشیا ٕ کی نماٸندگی کرے گی۔
مقصد تو بندی کا نیک ہی تھا کہ یہ اسٹوڈنٹس پاکستان کا نام روشن کر رہےہیں اور یہ بہت فخر کی بات ہے لیکن ہوا کچھ یوں کہ اسٹوڈنٹس کے پراجکٹ کے حوالے سے ندا نے کچھ سوالات کیے جن پر ان کو لاعلم اور جاہل بنا کر ان کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ 
یہ تو اینکرز حضرات ہی جانتے ہوں گے کہ وہ سوالات کس حساب سے کرتے ہیں آیا کہ وہ خود معلومات لے رہے ہوتے ہیں یا یہ کہ اپنے دیکھنےوالے  ناظرین کے  حساب سے سوالات کرتے ہیں کہ عام عوام اس چیز کے بارے میں کیا سوال کرسکتی ہے۔


جو بھی وجوہات ہوں گی ندا کے ان سوالات کے پیچھے یہ کسی نے جاننا ضروری نہ سمجھا اور چار سال پرانا پروگرام جو کہ ماضی  کا حصہ بن چکا تھا اس کو لے کر واٸرل کرنا شروع ہوگۓ۔
یہ ہماری قومی بیماری ہے  دوسروں کے ماضی کی راکھ  کریدنا۔
ہر بندہ ہر موضوع کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتا یہ ایک نارمل سی بات ہے۔
مانا کہ اس کے بارے میں آپ کو نہیں معلوم ہوگا لیکن اس سب سے ہوا کچھ یوں کہ جن کو خود 
formula racing car 
کے بارے میں ککھ وی نہیں پتا تھا شاید آپ کی اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ہی پتا چلا ہوگا، اب وہ بھی یہ وڈیو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ 

ہر کوٸ ہر شعبے کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتا لیکن یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد افسوس ہوا کہ ہماری یہ قوم کس طرف جا رہی ہے۔
اور جب  سوشل میڈیا کا دور ہے میڈیا پرسنز بہت سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہماری عظیم عوام بال کی کھال نکال ڈالتی ہے تو ایسے میں اینکرز حضرات کو بھی شوز کرنےسے پہلے ہوم ورک کرنا چاہیے اور احتیاط سے کاملینا چاہیے ہوگا یہ کہ ایسے تماشے آۓ دن دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔

یہ تو  ہوگیا اس واٸرل ویڈیو  پر تبصرہ اب دوسری طرف آتے ہیں  کہ ان کی طرف جنھوں نے  اس چار سال پرانے شو کا کلپ ٢٠٢١ میں واٸرل کیا۔



شرم کا مقام ندا یاسر کے بجاۓ اِن کے لیے ہے۔

ستم ظریی دیکھیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی دماغی حالت کتنی ابتر ہوچکی ہے کہ  2016 کا شو نکال کر واٸرل کر رہے ہیں یعنی کے تمام تر ذہین دماغ کی عوام 4 سالوں سے سو رہی تھی یاں شاید خود فارمولا  ریس کار ایجاد کرنے میں مصروف تھی۔

😏 

جو ان کو آج اس ویڈیو میں یہ غلطی نظر آٸی۔
کیا سب ١٠٠ فیصد پرفیکٹ ہیں یاں سقراط بقراط خلیل جبران کے ڈاٸیرکٹ شاگرد ہیں؟ 
 ذہنی بیماری کے علاوہ اس کو اور کیا کہیں گے؟ 

تمیز تہذیب تربیت کا فقدان دیکھ کر دِل خون کے آنسو روتا ہے۔

ہم کیا کر رہے ہیں؟

کس ڈگر پر جا رہے ہیں؟

ہماری ترجیحات کیوں اتنی گِر گٸ ہیں؟

کیا دوسروں کا مذاق اور تمسخر اڑانا ہی ہماری تفریح کا حصّہ رہ گیا ہے؟

اس بارے میں زرا نہیں

پورا سوچیے۔

شکریہ۔

(عادیہ  عروج)

Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...