Skip to main content

ڈیجٹل کانٹینٹ اور ہماری ڈرامہ انڈسٹری



ہمارا معاشرہ آج نفسا نفسی کا شکار ہے۔

ہر جگہ پھیلی بے راہ روی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ سچاٸی ہے

ایسے میں ڈیجیٹل کاٹینٹ دیکھنےوالوں پر اپنا خاص اثر رکھتا ہے۔


یوتھ  میں جیسے سوشل میڈیا کا ایک اہم رول ہے ایسے ہی ہماری نوجوان نسل  ٹی وی تھیٹر ، سینما کی بھی شیداٸی ہے ۔ کیا ان میں  دکھاے جانےوالا کانٹینٹ کا چُناٶ کرنے میں احتیاط کی ضروت نہیں ہونی چاہیے؟

ہمارے ہاں  عوام کو کس قسم کے ڈرامے  دکھا رہے ہیں ؟  ان کا ماٸنٹ سیٹ کررہے ہیں۔ڈرامے میں دیا جانے والا  بڑا سبق اتنا اثر نہیں چھوڑتا جتنا اکثر اوقات ایک چھوٹا منظر لاکھوں نوجوانوں بالخصوص کم عمر کچی ذہن کے ناظرین کے ذہنوں پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔

آپ مستقل ایک ہی چیز  عام عوام کو دکھاٸیں گے  تو نوجوان نسل اس ہی ذاویے سے  اُس پہلو پر سوچے گی۔ آپ صرف ساس، بہو ، سسرال کے منفی رول دکھاتے رہیں گے تو  دیکھنے والے اپنی سوچ میں یہ منفی مزاج شامل کرلیں گے   کہ جی سسرال صرف بُری ہی ہوتی ہے اور ساس سسر نند دیور صرف منفی  قسم کے ہی افراد ہوتے ہیں۔

ایسےتو نوجوان لڑکیاں یہ منفی سوچ لےکر ان رشتوں کو ڈیل کریں گی یاں ہوسکتا ہے ان میں سے کٸ ایسی ہوں جو یہ سب دیکھنے کے بعد شادی ،سسرال جواٸنٹ فیملی سے ہی .دور بھاگیں۔

حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل جیو اینٹرٹینمٹ  پر ایک ڈرامہ چلا تھا 

 تیرے بِن 

 جس  کو  عوام میں  انتہاٸی مقبولیت ملی۔

اس ہی ڈرامے میں کٸ زیادہ ایسے نازیبا مناظر دکھاۓ گۓ۔

 کبھی  ہیرو ہیروٸن جو کہ میاں بیوی بھی ہیں سوٸمنگ پول میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ 

کبھی تعویز بُنے جا  رہے ہیں ۔ 

کبھی لڑکی کزن  اپنے مرد کزن سے لپٹ رہی ہے۔


کبھی ساس بہو کو ڈانس کرنےپر  سبق سکھانےکے لیے سجی سنوری اپنی  دلہن بہو کو بھرے مجمعے میں تھپڑ جڑ رہی ہیں۔ 

(وہ بھی کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں)

ان سب کو ایک طرف کر کے آتے ہیں اصل مُدعے کی جانب۔ اس ڈرامہ میں اوپر بیان کیے گۓ مناظر کے علاوہ ایک غیر عجیب سین دکھایا گیا کہ جس میں میاں بیوی کے  آپسی جھگڑے پر بیوی اپنے شوہر کے منہ پر تمانچہ دے مارتی ہے اور اس پر اُس کو تسلی نہیں ملتی تو محترمہ شوہر کے منہ پر تھوک ہی ڈالتی ہیں۔

اس کے بعد دو سال تک محترمہ روپوش رہتی ہیں اور دو سال بعد اُن کی   واپسی ایک  عدد بچی کے ہمراہ ہوتی ہے۔ اور ان کے واپس آجانے سے تھپڑ کھاٸے اور تھوکے جانےوالے مجنوں ہسبینڈ اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ سیدھا اُن کے قدموں میں  جا بیٹھتے ہیں کہ آٸندہ تھوک ، پھونک ، لات ،مُکہ ، گھونسا سب جڑ دینا مگر چھوڑ کے نا جاٸیں شہزادی  

😈😈😝😝😝😝

اور بی بی گردن کو تناٸے بڑے فخر سےفرماتی ہیں کہ سرتاج آٸندہ  میرے اشاروں پر ناچنے کو تیار رہنا  😦😦 

سرتاج سر خمِ تسلیم کردیتے۔

👀👀👀

یعنی کہ آٸند ہ اِس گھر میں وہ ہوگا  جو    محترمہ کا حکم ہوگا

 😣😣😣😣

زرا ایمانداری سے بتاٶ ماٶں ، بہنوں  کہ  ہمارے ملک میں میاں اپنی  بیوی سے  تھپڑ اور تھوک  لینے کے بعد بیوی کا حال کیا کرتے ہوں گے؟ 

ہماری ماٶں کی تو یہ جرات ہمت نہ ہوٸی اب اگلی نسل کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔

ہم کیا دِکھا رہےہیں؟

ان مناظر سے نوجوان بچیاں کیا سبق لیں گی؟

کہ یہ قبیح فعل کرنےکے بعد آپکو  اپنے پِٹے جانے والے شوہر سے غیر معمولی  اہمیت اور عزت ملے گی ؟ 

😒😒😒

کیا نوجوان لڑکیاں  شادی کے بعد شوہر کا احترام اور ادب سیکھیں گی اِس ڈرامے کے  اس سین سے؟

یاں وہ اور منہ زور ہوں گی۔

ویسے ہی ہمارے ملک کی نوجوان نسل کے حالات ہم سب کے سامنے ہی ہیں ۔ لگتا ہے آگے سونےپر سہاگہ والی صورت حال آنے والی ہے۔

آجکل کی ینگ جنیریشن میں نہ  اپنے والدین کا وہ احترام اور ادب ہے جو کہ والدین  کا حق ہے، نہ  دیگر خاندان اور محلے کے بڑےاور بزرگوں کا اِن کی نظر میں کوٸ مقام یاں احترام عزت ہے اور  نہ ہی اپنے اساتذہ کی قدر۔ 

آگے آپ خود سوچ لیں کہ  اس طرح کہ کانٹینٹ کے ذریعے معاشرے کو کس ڈگر پر چلایا جارہاہے۔

یہ تحریر  لکھ کر جس مقصد کی طرف اشارہ دلانا تھا امید ہے کہ آپ لوگ سمجھ گۓ ہوں گے۔

ڈرامہ انڈسٹریز سے گزارش ہے کہ خدارا  نوجوان نسل کو مذید  گمراہ کرنے میں تھوڑا ہلکہ ہاتھ رکھیں ہمارا معاشرہ ویسے ہی کوٸ بہت زیادہ تہذیب یافتہ اب نہیں رہا جو آپ اس طرح  اور مذید اُس کے بگاڑ میں چار چاند لگا رہے ہیں۔

🙏🙏🙏


اس بارے میں زرا نہیں پورا سوچیٸے۔

 

Comments

  1. Bohat eham or zarori topic .. 👍👍👍👍

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ سب کا تحریر پسند کرنے کے لیے۔
    جزاك اللهُ‎

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

21st Century اکیسوی صدی

!!یہ اکیسوی صدی ہے دوست  زرا سنبھل کے۔۔ دنیا کی ابتداء سے لے کر ابھی تک کے بد ترین وقت میں خوش آمدید۔۔ خوش آمدید اُس اکیسیوی صدی میں کہ جس کا ذکر ہمیشہ ڈرانے والے انداز میں ہی کیا جاتا ہے۔ اب عزت دار  با عقیدہ اور غیرت مند افراد آپ کو چُھپے ہوئے ملیں گے  جو زیادہ تر گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں گے,  لوگوں کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے۔ یوں سمجھ لیں کہ جیسے  وہ دہکتا انگارہ ہتھیلی پر رکھے بیٹھے ہوں۔  جبکہ اُن کے برعکس بے شرم بے حیا اور ذلیل لوگ معاشرے میں مقبول اور پسندیدہ بنیں  دکھائی دیں گے۔ پچپن ساٹھ سال کا آدمی جوانی کے نشے میں مست ملے گا جب کہ  پچیس سال کا نوجوان آپ کو زندگی سے تنگ دُنیا سے بیزار موت کا منتظر ملے گا۔ وہ جن کے کھیلنے کودنے کے دن بھی ختم نہیں  ہوئے وہ آپ کو  ڈپریشن اور اسٹریس پر سرِ عام  تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔ ننھی مُنّی بچیاں  محبوب کے دھوکہ دینے اور چھوڑ جانے پر  آپ کو غم زدہ ملیں گی۔ اصول پسند حق بات کرنے والے اور غیرت مند افراد کو دقیانوسی اور تنگ نظر سمجھا جارہا ہے۔  جبکہ بے راہ روی, فحاشی و عریان...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...