Skip to main content

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident




ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟

جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔ 

جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔

میرا خیال درست

میرا طریقہ صحیح

میری ہی فکر برحق 

اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟

کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔

بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔

مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔

گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔ 

آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔

مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔

اور پولیس کے پہنچ جانے تک اُس عورت کی مکمل حفاظت کی۔

پولیس پہنچ جاتی ہے۔ اے ایس پی شیربانو صاحبہ نے مجمعہ سے بات چیت کرکے عوام کو اپنے اعتماد میں لیا اور انھیں     یقین دہانی کرواٸی کہ وہ اس معاملہ کو قانونی کارواٸی کے زریعے ہینڈل کریں گی عوام ان پر  مکمل  بھروسہ رکھے اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔

اے ایس پی صاحبہ نے اس عورت کو وہاں سے اپنی حفاظت میں نکالا۔



اس کے بعد ایک ویڈیو بیان جاری ہوا جس میں اُس خاتون نے اپنی لاعلمی  کا اظہار کیا کہ وہ قرآنی آیات کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اور یہ سب انھوں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔

اور اُس ہی ویڈیو بیان میں خاتون سے معافی منگواٸی گٸ۔

ٹھیک کیا بی بی ورنہ۔اس عقل سے پیدل ہجوم  نے تمھارے ساتھ بہت برا کرنا تھا۔

دراصل خاتون کے لباس پر عربی کیلیگرافی پرنٹڈ تھی جس وجہ سے لوگوں کو مغالطہ ہوگیا کہ قرآنی آیات لکھی ہیں۔        


 اس خاتون سے تو معافی منگوا لی گٸ اس کام کی جو کہ غلطی تھی ہی نہیں۔ 
اس ہجوم کی معافی کہاں ہے؟ جو ناحق بات پر ایک  عورت کو حراساں کر رہے تھے؟ اُس کی جان لینے کو تیار کھڑے تھے۔
کیا ان کو بھی باور کروایا جاٸے گا کہ وہ سب یہ کام غلط کر رہے تھے؟

جب  اے ایس پی صاحبہ اس عورت کو وہاں سے  نکال کر لے جا رہی تھیں تو کچھ یہ نعرے لگ رہے تھے۔

گستاخِ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا

گستاخِ رسول  کی ایک ہی 

 سزا سر تن سے جدا۔

یہاں لباس میں عربی کیلیگرافی میں رسول ﷺ کی نعوذباللہ گستاخی کا کیا معاملہ تھا؟

🤦🏼‍♀️

ہم واقعی قوم نہیں ہیں ہجوم ہیں ، ریوڑ ہیں۔

نہ سوچنا ہے نہ سمجھنا ہے نہ سامنے والے سے وضاحت پوچھنی ہے بس فیصلہ کرنا ہے کہ بس گستاخی ہوگٸ ہے اب قتل کرو بس بات ختم کرو۔ 

یعنی عوام ہی عدالت 

عوام ہی وکیل

عوام ہی گواہ 

عوام ہی جج 

عوام ہی جلّاد

توہینِ مذہب کا نام دے کر آپ کسی کی جان لینے کا سوچ رہے ہیں وہ ہی دینِ اسلام  کسی کی جان لینا تو دور کی بات ہے  آپ کو کسی عورت کو ہاتھ لگانے اور نظر اُٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا تو آپ کس حیثیت سے اس کو سزا دینے لگے ہیں؟

کس قدر عدم برداشت ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہے۔ 

نہ ہم معاملے کی تحقیق تک جانا چاہ رہے ہیں نہ ہم کچھ سننا چاہ رہے ہیں۔ نہ ہم پولیس کا انتظار کرنا چاہ رہے ہیں۔

ایسا کتنی بار کیا جا چکا ہے۔ گستاخی کا نام لے کر ایک انسان کو قتل کردیا جاتا ہے۔ بعد میں واقعے کی تحقیقات کے بعد عقد کھلتا ہے کہ کسی قسم کی گستاخی سرزد نہیں ہوٸی تھی لیکن مارا گیا انسان واپس نہیں آسکتا۔

سری لنکن بندے کے ساتھ بھی ہماری قوم نے ایسا ہی کیا تھا۔ کس بے رحمی سے اس کو قتل کیا۔اور تب بھی چین نہ آیا تو لاش ہی جلا دی۔

جہالت جہالت صرف جہالت۔

خلیفہِ راشدین کے دور میں جب کوٸی کسی پر کوٸی بڑی تہمت یاں الزام لگاتا تو  قاضیِ وقت کی جانب سے چار چشمہ دید گواہ لانے کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر گواہ نہ لاٸے جاتے تو کسی ایک فرد کی گواہی کو جواز بنا کر ہرگز سزا نہ دی جاتی۔ اور سب سے بہترین اور اہم بات کہ  گواہان کا کردار ، اخلاق دیکھا جاتا تھا کہ وہ کیسا شہری ہے اُس کے بعد فیصلہ کیا جاتا کہ اس کی گواہی قبول کرنے کےلاٸق ہے کہ نہیں۔

 ہر ممکن طریقے سے معاملے کی سچاٸی کی تحقیق کی جاتی۔

اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

یعنی ہمارے ہاں فیصلہ سنانا اتنا آسان کردیا گیا ہے کہ نہ تحقیق چاہتے ہیں اور نہ ہی حقاٸق ، بس عجلت مندانہ فیصلہ چاہتے ہیں۔

 سر تن سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔

بندے کو زندہ جلانا چاہتے ہیں۔

مار مار کر اپنی اپنی فرسٹریشن نکالنا چاہتے ہیں۔

گستاخی کے شرعی  و قانونی معاملات اور مساٸل کی الف ب بھی نہ جاننے والے فیصلہ کرنا ہی کیوں چاہتے ہیں ؟ 

یہ فعل قابلِ مذمت ہے۔

 افسوس ناک ہے۔

ہمارے معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔

عجلت بازی کے بجاٸے ،لوگوں کو معاملے کی تحقیق کا انتظار کرنا چاہیے۔ آرام سے بیٹھ کر  بات چیت کرنی چاہیے۔

عربی کیلیگرافی کو آپ قرآنی آیات کا نام دےکر  ایک انسان کو موت کے گھاٹ اُتارنا چاہتے ہیں، فساد برپا کر رہے ہیں۔ 

ہمارا دینِ اسلام آپ کو اس انتہاٸی قدم کی اجازت نہیں دیتا۔

ایسے فیصلے کرنا آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے۔

آج ایک بے گناہ جان اس ہجوم کے ہاتھوں  موت کی بھینٹ چڑھ جاتی۔

ہمارے ہاں لوگوں کی دماغی حالت دیکھیں اور اس قسم کے مشکوک لباس پہننے سے اجتناب کریں۔ ابھی تو اے ایس پی صاحبہ نے اس خاتون کو بچا لیا اگلی بار پولیس وقت پر نہ پہنچ پاٸی تو؟ ؟؟

اس بارے میں زرا نہیں

پورا سوچٸے۔


Comments

  1. تم بالکل ہم جیسے نکلے
    اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

    وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
    جس میں ہم نے صدی گنوائی

    آخر پہنچی دوار توہارے
    ارے بدھائی بہت بدھائی

    پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
    قائم ہندو راج کرو گے

    سارے الٹے کاج کرو گے
    اپنا چمن تاراج کرو گے

    تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
    پوری ہے ویسی تیاری

    کون ہے ہندو کون نہیں ہے
    تم بھی کرو گے فتویٰ جاری

    ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا
    دانتوں آ جائے گا پسینا

    جیسی تیسی کٹا کرے گی
    یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی

    بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
    اب جاہل پن کے گن گانا

    آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو
    واپس لاؤ گیا زمانہ

    مشق کرو تم آ جائے گا
    الٹے پاؤں چلتے جانا

    دھیان نہ دوجا من میں آئے
    بس پیچھے ہی نظر جمانا

    ایک جاپ سا کرتے جاؤ
    بارم بار یہی دہراؤ

    کیسا ویر مہان تھا بھارت
    کتنا عالی شان تھا بھارت

    پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
    بس پرلوک پہنچ جاؤ گے

    ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
    تم بھی سمے نکالتے رہنا

    اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے
    چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا

    فہمیدہ ریاض

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...