Skip to main content

پتنگ بازی پر پابندی Say No to Kite Flying

Say no to Kite Flying

🙏 


تیری ایک پتنگ کے لٹنے سے 

میری متاعِ حیات لٹ گٸ

💔

بے شک موت کا ایک دن  متعین ہے ۔

لیکن ہمارے ملک میں  نظام کی بدحالی اور لاقانونیت  کے سبب جس طرح مختلف حادثات رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ آٸے دن نا جانے کتنے بے گناہ افراد موت کا لقمہ بنتے ہیں


 بروز ٢٣ مارچ ٢٠٢٤ کو فیصل آباد میں  یہ واقعہ پیش آیا۔ ٢١ سالہ آصف اشفاق  ناولٹی پُل سے موٹر ساٸیکل پر سوار  افطاری کا سامان لینے جا رہا تھا کہ راستے میں  تیز دھاتی پتنگ کی ڈور گلے پر پِھر جانے سے یہ شخص سڑک پر منٹوں میں تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار گیا۔

سننے میں آیا ہے کہ عید کے بعد آصف کی شادی طے تھی۔

قصور وار کس کو کہیں؟

پتنگ بازی یوں تو ایک شغل ہے لیکن اس پر پابندی کی مختلف وجوہات ہیں۔ اس کھیل کے دوران  مختلف حادثات پیش آتے ہیں۔    

چھتوں پر پتنگ اڑانے میں مشغول اکثر پتنگ باز چھت سے گر کر اپنا جسمانی و جانی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ اور تو اور یہ ایک ایسا قاتل کھیل بن چکا ہے کہ  راہ چلتے معصوم افراد  بھی اکثر اس کی لپیٹ میں آ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

اکثر کٹی پتنگوں کی قاتل ڈوریں بجلی کی تاروں سے لپٹی سڑکوں پر جھول رہی ہوتی ہیں جو کہ  کار رکشہ موٹر ساٸیکل  سواروں کو دِکھاٸی نہیں دیتی اور گلے سے پِھر جاتی ہے اور بندہ پل بھر میں ختم۔

دنیا کے مختلف ممالک میں پتنگ بازی عام ہے۔ لیکن پاکستان میں پتنگ بازی کو کھیل سے بڑھ کر دہشت گردی بنا دیا گیا ہے، انا کی جنگ بنا دیا گیا ہے کہ بس ہر حال میں ہم نے ہی یہ مقابلہ جیتنا ہے۔  

آپ اندازہ لگاٸیں کہ پتنگ کے مانجے میں  شیشہ ملایا جاتاہے۔

پتنگ کی تار میں اسٹیل کا استعمال کر رہے ہیں۔

مچھلی کی ڈور بنا رہے ہیں

پتنگ بازی کے کھیل کو ثقافتی حیثیت حاصل تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھیل خونی کھیل  موت کی صورت  اختیار کرگیا۔ اس کھیل میں اپنے مخالف کو  ہرانے کے لیے  ڈور کو بناتے وقت اس طرح کی تیز دھات اور کیمیکلز کا استعمال بہت زیاہ کیا جاتا ہے جس سے ڈوری میں شدید تیزی ہوتی ہے جو کہ کسی بھی شے کو چیر دیتی ہے۔ اس ڈور کی خطرناک تیزی کے آگے 

انسانی اعضاء  کوٸی حیثیت نہیں رکھتے

یعنی کہ کھیل کو کھیل اور شغل سےنکال کر کہاں تک پہنچا دیا کہ راہ چلتےافراد جان سے جا رہے ہیں۔

پتنگ بازی میں اگر آپ ہار گٸےتو کیا ہوگا؟

جیت گٸے تو ۔۔؟؟

نہ کوٸی تمغہ ملنا ہے نہ کوٸی نیشنل ایوارڈ سے نوازا جانا ہے۔

تھوڑی دیر کے اس کھیل تماشے کو کسی کی زندگی بھر کا روگ بنا دیا ہے۔ 

ان وجوہات کی بنا ٕ پر پاکستان میں  ٢٠٠٩ میں اس کھیل پر پابندی عاٸد کی گٸی تھی۔

لیکن اس پابندی پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آیا 

کچھ سال پہلے ایک دو سالہ بچہ جو اپنے والد کے ساتھ  موٹر ساٸیکل پر  سوار تھا اس قاتل ڈوری

کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گیا تھا۔  

پاکستان میں حکام کی جانب سے اس کھیل پر پابندی عاٸد ہے مگر اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ خاص کر کہ صوبہ پنجاب میں یہ کھیل بہت عام ہے۔ پابندی کے باوجود لوگ پتنگ بازی سے باز نہیں آتے۔  اور اس کی ڈور کے سبب اموات کی شرح پنجاب میں سب سے زیادہ ہے۔   

پتنگ بازی پر پابندی عاٸد کرنے کے ساتھ نہایت ضروری ہے کہ اس کے بناٸے جانے کے عمل پر پابندی لگاٸی جاٸے یاں تو تیز دھات اور کیمیلکلز کے استعمال پر نگرانی کی جاٸے۔کیوں کہ جب تک ایسی  تیز اور خطرناک نوعیت کی ڈوریں بنتی رہیں گی لوگ یوں ہی اپنی جان کی بازی ہارتے رہیں گے۔

اب اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ  حکامِ بالا یاں تو مکمل اس کھیل کو ملک سے مکمل طور پر بند کریں یاں   پتنگ کی ڈوری ، مانجا اور  باقی سامان بنانے کی فیکٹریوں کی  سخت نگرانی میں جانچ پڑتال کریں کہ پتنگ کے سامان میں تیز دھاتی کیمیکلز بالکل نا شامل کیے جاٸیں۔

 بے قصور عوام کو اس خونی کھیل سےبچایا جاٸے۔آخر  کتنے لوگ اس بیکار کے شغل کی وجہ سے اپنی جان گنواتے رہیں گے؟

کیا ہمارے ہاں انسانی جان اتنی بے وقت ہے؟


 

حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس مسٸلے پر اپنے فراٸض نبھانے ہوں گے اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔

 پتنگ بازی کے رواج کےخاتمے کی شروعات اپنے  ارد گرد، گھر اور گلی محلہ سے کریں۔ اپنے بچوں کو اس کھیل کے نقصانات سمجھاٸیں۔ اور اس کھیل کے فروغ کو اپنےگھر سے ختم کرنا شروع کریں۔

اور جو بڑے اس کھیل کے عادی ہیں وہ بھی اپنی اصلاح فرماٸیں کہ آپ کے اس بیکار شغل کے سبب کتنی بے قصور جانیں ضاٸع ہورہی ہیں۔ 

اس بارے میں زرا نہں پورا سوچیٸے۔





Comments

Popular posts from this blog

Nadia Khan & Sharmeela farooqi Issue

کچھ دن پہلے   ٹی وی اداکار علی انصاری اور صبور علی کی  مہندی کی تقریب منعقد ہوٸی تھی، جس میں  پاکستانی ایکٹریس اور مارنگ شوز کی ہوسٹ نادیہ خان نے بھی شرکت کی اور وہ اپنے سیلفی کیمرہ سے مہندی  کے ایونٹ کی ویڈیو ناتیں  اور تقریب میں شریک مختلف مشہور شخصیات سے گفت و شنید کرتی دکھاٸ دے رہیں تھیں ۔  اس ہی ویڈیو میں ایک سے دو منٹ کا کلپ آتا ہے کہ جس میں  نادیہ خان پیپلز پارٹی کی رکن محترمہ شرمیلا فاروقی کی والدہ انیسہ فاروقی کو  ان کے میک اپ ، ڈریسنگ   اور جیولری  پر  Compliment کر رہی تھیں ، ان کو سراہ  رہیں تھیں۔ بظاہر دیکھا جاۓ تو نادیہ خان نے اِس تمام دورانیے میں ایسا کوٸ لفظ یاں لہجہ نہیں استعمال کیا کہ جس پر اعتراض اٹھایا جاۓ کہ یہ تزلیل آمیز یاں ہتک آمیز تھا۔ لیکن جناب نکالنے والےتو بال کی بھی کھال نکال لیتے  Vlog ہیں یہ تو پھر بھی ایک سیلبرٹی کی بناٸ   تھی۔ ١٣ جنوری کی اپلوڈ کی ویڈیو پر شرمیلا جی کی جانب سے اعتراض اٹھایا جاتا ہے  اور بقول نادیہ خان کے شرمیلا جی نے ان کو  کہا ہے کہ  وہ ایک بے شرم عورت ہیں اور یہ کہ  نادیہ کو ایک عورت کامذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ مذید بتایا کہ

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معاملہ  بھی اس سال خبروں میں گردش کرتا رہا۔ جس وج

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ جن کا ذکر آسمانوں میں کیا جاتا ہے ان کے لیے بے ادبی مسلمان کیسے سہے؟  جن کا نام بھی بنا درود (صلی اللہ علیہ وسلم)کے لینا منع ہے ان کی شان میں گستاخی برداشت کرنے کا مشورہ کیسے برداشت کیا جاۓ؟ گستاخی و بے ادبی کو اظہارِ راۓ کی آزادی کہہ کر معمولی بات گردانی جاۓ اور ہم کو اگنور کرنے کا درس دیا جاۓ تو اس پر خاموش کیسے رہا جاۓ؟  چوٹ دِل پر لگاٸ ہے ایک دو نہیں کھربوں مسلمانوں کے دلوں پر۔ دیگر مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصے سے لکھنے کا سلسلہ ترک کیاہوا تھا۔ آج  فیس بک پر کراچی کے ایک سپر اسٹور Bin Hashim Pharmacy And SuperStore کے پیج پر  ان کی پوسٹ  دیکھی جس میں ان کی طرف سے فرانس کی مصنوعات کے باٸیکاٹ کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ دل نےکہا کہ اس دکھ کی گھڑی میں کچھ لکھا جاۓ۔   لوگ لاکھ کہیں کہ اشیاء کے باٸیکاٹ سے کچھ نہیں ہوتا ہمارے زرا سے احتجاج سے کیا ہوگا؟  بیکار اور بے مقصد کام ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ہمیں یہ عمل بے معنی لاحاصل اور بے مقصد لگے گا۔ لیکن یہ عمل معمولی نہیں ثابت ہوگا۔ ملاٸشیا کی تاجر برادری نے فیصلہ کیا ہے کہ جو سالانہ فرانس سے ١٠٠ بلین ڈالر کی اشیاء  خریدی جاتی