خیبر مدینہ شریف سے تین سو کو میٹر کی مسافت پر قاٸم ایک شہر تھا۔
خیبر کا علاقہ سرزمینِ عرب کے یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔ اس علاقے میں بہترین اقسام کی کھجوریں پاٸی جاتی تھیں جس وجہ سے اس علاقے کے یہودی بہت مالدار تھےاور یہاں کے یہودی جنگی خوبیوں کے سبب بھی بہت مشہور تھے۔
لیکن اسلام کے بد ترین دشمن بھی تھے۔ انھوں نے اپنے علاقے خیبر میں اپنی حفاظت کے لیے آٹھ نہایت ہی مضبوط قلعے بناٸے ہوٸے تھے۔
محل نما یہ آٹھ قلعے جن کے نام
قطیبہ
ناعم
شق
قموس
نطارہ
صعاب
سطیخ
سلالم تھے۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ جنگِ خندق میں کفارِ عرب کے ساتھ خیبر کے یہ یہودی بھرپور انداز میں شامل رھے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگِ خندق کے ماسٹر ماٸنڈ خیبر کے یہودی ہی تھے اور اپنے مالدار ہونے کے سبب خندق کی جنگ میں کفارِ عرب کا ساتھ دینے کے لیے اپنا پیسہ جی بھر کر لُٹایا۔
کفار کی حملہ کی تیاری کی خبر سن کر آپ ﷺ بھی سولہ سو اصحابِ اجمین کے لشکر کے ساتھ خیبر پہنچتے ہیں۔ یہودیوں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔
جنگی تدبیریں اپناٸی جاتی ہیں۔ ایک قلعے میں عورتوں بچوں کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ لبمی لڑاٸی کا پلان بناتے ہوٸے راشن کی ذخیرہ اندوزی بھی کی جاتی ہے۔ یہودیوں نے لڑاٸی کے لیے مختلف قلعوں کو اپنے مورچے بنایا ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جنگیں تلوار کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی اور تدبیر سے بھی جیتی جاتی ہیں۔
بظاہر دیکھنے میں یہودی اپنے خیبر کی حفاظت کے لیے مکمل تیار نظر آرہے تھے۔ قلعوں میں ان کے جنگجو فوجی ہر قسم کی حفاظتی تدابیر اپناٸے ہوٸے اپنے اپنے مورچے سنبھالے ہوٸے تھے۔
لیکن مسلمانوں کے پاس ایمان کی طاقت تھی۔تاریخ فاتحِ خیبر شیرِ خدا جنابِ علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری کے آگے آج بھی اپنے گھٹنے ٹیکتی ہے۔
یہودیوں کے پاس موجود فوج بیس ہزار کے لگ بھگ تھی
قلعہ قموص کٸی دن تک فتح نہ ہوسکا۔
کیوں کہ اس کی فتح اللہ نے کس اور کے ہی مقدر لکھ دی تھی۔
اگلے دن صحابہ کرام ؓ کا اشتیاق دیدنا تھا کہ عَلَم کس کو تھمایا جاتا ہے۔
نبی ﷺ کی جانب سے آواز آتی ہے کہ علی کہاں ہیں؟ آپﷺ کو بتلایا گیا کہ وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔
نبی پاک ﷺ نے جنابِ عل ؓ کو بلوایا۔
اپنا لعابِ دہن جنابِ علی کی آنکھ میں لگایا اور وہ ایسی ہوگٸ کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پھر آپ نے عَلَم مبارک حضرتِ علی کو تھمایا۔
بخاری شریف میں غزوہ خیبر کے باب میں یہ حدیث موجود ہے کہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دے کر روانہ کیا کہ وہ قلعے میں چھپے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں اگر ایک بھی فرد آپ کی بدولت اسلام قبول کرلیتا ہے تو یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
آپ ؓ قلعہ قموص پر پہنچتے ہیں اور وہاں موجود یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن آگے سے ان کی جانب سے حملہ کردیا جاتا ہے۔
اس قلعے کی سرداری کا فریضہ انجام دینے والا شخص ایک پہلوان تھا جس کا نام مرہب تھا جو کہ اپنی طاقت کی وجہ سے عرب میں کافی مشہور تھا۔ اور خیبر کے موقعہ پر خوب تنتناتا ہوا آپ سے لڑاٸی کرنے آگے بڑھا ۔ مرہب کا پہلا وار آپ ؓ نے ناکام لوٹا دیا اور حضرت علیؓ کی تلوار مبارک کی ایک ہی ضرب سے مرہب کا سر دانتوں تک چیر ڈالا۔
اللہ ھو اکبر
یہ کٹا مرہب کا سر
ساتھ ہی کٹ گیا اس کا غرور۔
یہودیوں کا جنگی طمطراق۔
ایمان کی دولت سے لیس شیرِ خدا کے آگے مقابلے میں آنے کی جرات بھی کٹ کے ڈھیر ہوگٸ۔ مرہب کا وجود زمین پر چت پڑا دیکھتے یہودیوں نے آپ ؓ پر دھاوا بول دیا ۔
لیکن آپ کی بہادری شجاعت کے آگے ایک مرہب ہی نہیں بلکہ حارث ،اسیر ،عامر کٹ کٹ کر گرتے رہے۔
واہ کیا کمال شجاعت ہے آپؓ کی۔
خیبر کے مضبوط ترین قلعے قموص کا وہ وزنی دروازہ آج بھی آپ ؓ کی طاقت و شجاعت کا گواہ ہے۔ جسے اکٹھے چالیس افراد اٹھاتے تھے، مقابلے کے دوران آپ ؓ نے اپنی ڈھال ٹوٹ جانے کی وجہ سے قلعہ قموص کے اس دوازے کو زمین سے اکھاڑ کر اپنی ڈھال بنایا اور باقی کی لڑاٸی کو جیت تک پہنچایا۔
بیشک آپ ؓ ہی وہ محب اور محبوب ہستی تھے جن کا ذکر اوپ حدیثِ پاک میں بیان ہوا، جن کے ہاتوں فتح خیبر لکھی تھی اور اس عظیم فتح کی بدولت سرزمینِ عرب سے یہودیوں کی جنگی آن بان شان کا جنازہ نکال کر رکھ دیا گیا۔
یہ معرکہ بیس دن تک جاری رہا۔
اس جیت نے جہاں یہودیوں کے جنگی غرور کو خاک میں ملایا ، وہیں اسلام اور مسلمانوں کی عرب کی زمین پر خوب دھاگ بیٹھی۔ مسلمانوں کو ہر وقت نقصان پہنچانے کا یہود و مشرکین کا گٹھ جوڑ ٹوٹا اور فتوحات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔
فتح خیبر مسلم تاریخ کی ایک عظیم الشان فتح ہے ، جس کا سہرا حضرت علی کی بہادری و شجاعت کے سر جاتا ہے۔
آپؓ کا شمار افضل ترین اصاحب میں ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بیت میں بھی ہوتا ہے۔
آپ ؓ نبی پاک ﷺ کے چچا زاد اور داماد بھی تھے۔
ہم مسلمانوں کے نزدیک مولیٰ علی سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے کیوں کہ جو نبی ﷺ سے محبت رکھتے ہیں ان کے لیے لازمی جنابِ علی کرم اللہ وجہہ بھی ان کی محبوب ہستی ہوں گے کیوں کہ اہلِ بیت سے محبت کرنا ہر بندہ ٕ مومن پر لازم ہے۔
آپ ؓ کو نبی ﷺ نے شہید کا درجہ عطا کیا۔
آپؓ نبی ﷺ کی محبوب شخصیت تھے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے۔
Boht acha likha hai.
ReplyDelete