Skip to main content

ایک دوسرے کو برداشت کیجیے۔




سانحہ ڈسکہ

ایک دوسرے کو برداشت کیجیئے

پچھلے دنوں ڈسکہ شہر میں دل کو دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ جس میں ساس , نند  نے  خاندان کے دو آدمیوں کے ساتھ مل  کر  اپنی سات ماہ کی حاملہ بہو  زہرہ قدیر کو  منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کیا پھر لاش کے ٹکڑے کر کے اور شناخت مٹانے کے لیے سر کو تن سے علیحدہ کر کے چولہے پر جلایا   اور لاش کو نالے میں بہا دیا۔


زہرہ کے قتل میں ملوث اس کی ساس , نند ,نند کا بیٹا اور ایک رشہ دار پولیس کی  زیرِ حراست ہیں۔

پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ کس قدر ظالم اور سفاک لوگ تھے ۔  دھیان میں رکھیے گا کہ یہ  عورت صرف  ساس نہیں بلکہ  زہرہ کی سگی خالہ بھی تھی۔

زہرہ کا شوہر سعودیہ میں مقیم تھا ۔

زہرہ بھی شوہر اور ڈھائی سالہ  بیٹے کے ساتھ سعودیہ میں ہی رہتی تھی لیکن اکثر پاکستان بھی آتی رہتی تھی اور اس واقعہ سے پہلے اپنے والد کے ساتھ اپنے میکے میں رہ رہی تھی کہ ساس اور نند نے دھوکے سے اپنے گھر بلایا اور قتل کر ڈالا۔

بیٹی سے جب کچھ دن تک فون پر والد کا رابطہ نہ ہوسکا تو انھوں نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی جس کے بعد اصل کہانی سامنے آئی۔

تفتیشی سوالات میں جھگڑے کی کوئی خاص وجہ  سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ اُن کا بھائی  قدیر جو کہ شادی سے پہلے صرف اُن لوگوں کا خیال کرتا تھا اب  شادی کے بعد اپنی بیوی زہرہ کا بھی خیال رکھنے لگ گیا تھا , جو کہ ماں اور بہن کو ایک آنکھ نہ بھاتا۔ مقتولہ کے والد  شبیر نے مذید اپنی بیٹی اور سسرال والوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر باتیں رپورٹ میں شیئر کیں  کہ ان کی بیٹی زہرہ  اکثر ساس اور نند کی جانب سے پیش آنے والے مسائل کا تزکرہ کرتی تھی خاص کر اپنے شوہر کی بڑی  بہن کا  جو کہ اپنی ماں کو بہو کے خلاف بہت زیادہ ورغلاتی تھی ۔

ایک معصوم  عورت کو ساس اور نند نے اپنی نفرت اور حسد کی بھینٹ  چڑھا دیا۔ 

وجہ ؟؟؟

 عدم برداشت

بھائیوں  کے گھر بسے دیکھ کر تکلیف ہونا اور اُن کی شادیوں کے بعد بھی یہ خواہش رکھنا کہ  اُن کی زندگی پر ہمارا مکمل کنٹرول رہے۔  شادی شدہ بہنوں کا میکے پر اپنی دھونس جمانا کہ میکے میں جو ہو وہ اُن کی مرضی سے ہو۔ ہر معاملات میں  بے جا دخل اندازی کرنا , ماں کا بیٹے  کی کمائی پر صرف اپنا  یاں اپنی بیٹیوں کا حق سمجھنا۔ بہو کا بیٹے اور اس کی کمائی پر بالکل حق نہیں ہے یہ سوچ ہمارے گھرانوں میں بہت عام ہے اور یہ ہمارے معاشرے کا ایک بہت غیر اخلاقی پہلو ہے۔

اللہ نے ہر انسان کو آزاد پیدا  کیا ہے کسی انسان کو کسی دوسرے پر حکومت کرنے کا حق نہیں۔ کوئی اپنی زندگی کیسے گزار رہا ہے کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے اس سب سے کسی دوسرے کا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہے۔

بیٹا  پاکستان سے باہر رہتا ہے پیسے کما رہا ہے اُس کی کمائی پر بیوی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا  کمانے والے کے والدین کا بیوی کا حصہ دے دینے سے والدین کے حقوق غضب نہیں ہوجاتے۔ 

شادی شدہ بہنیں جب اپنے گھریلو معاملات چھوڑ کر میکے پر نظر رکھیں گی تو لازمی ان کے میکے میں موجود بھابھی کو کوئی نہ کوئی پریشانی ملے گی۔ 

جیسے ڈسکہ واقعہ میں زہرہ کے ساتھ ہوا کس قدر سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایک جان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے۔ آپ کو اس خوفناک نہج تک کس چیز نے پہنچایا کہ آپ نے اپنی حاملہ بہو کا قتل ہی کر ڈالا ؟

ذاتی عناد بغض نفرت حسد دشمنی یہ ایسی  بیماریاں ہیں کہ جن کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے ہدف کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد سے گزرجاتے ہیں۔ 

ان ساس نندوں کی دشمنی نے ایک چھوٹے سے معصوم بچے سے اُس کی ماں چھین لی بوڑھے والد سے اُس کی جوان بیٹی چھین لی اور ایک ننھی سی جان اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔

زہرہ کے بیٹے کے  اِس نقصان کا ازالہ دنیا کی کوئی دولت نہیں کر سکتی۔


مرد حضرات کو بھی عقل سے کام لینا چاہیے اور اپنے بیوی بچوں کو اپنے گھر والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جہاں آدمیوں کو معلوم ہو کہ میری ماں بہنوں کو میری بیوی پسند نہیں ہے ایسی صورت میں تو بلکل بھی اپنے گھر والوں کے بھروسے اپنی بیوی کو چھوڑ کر ملک سے باہر ہرگز نہیں جانا چاہیے ۔


 ہمارا معاشرہ کس قدر بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ دلوں کا میل اور آپسی نفرتیں بڑھتے بڑھتے کس قدر سنگین صورت اختیار کر جاتی ہیں کہ اس آگ کی لپیٹ میں کنبے کے کنبے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔

اپنے دل اور دماغ کو نفرتوں کی انتہا تک پہنچانے سے باز رکھنا چاہیے۔ اگر آپ کا بیٹا اور بھائی اپنی بیوی کے ساتھ خوش ہے  تو اُسے خوش رہنے دیں اُن کی خوشیاں خراب  اور ختم کرنے کے خواب مت دیکھیں۔  حسد کو اپنے اوپر اتنا حاوی نہ کریں کہ آپ  لوگوں کا نقصان کرنے میں لگ جائیں۔ کسی سے نفرت  میں پڑ کر اس حد تک نہ چلے جائیں کہ آپ لوگوں کو  زندہ چلتا پھرتا برداشت نہ کر سکیں۔

برداشت صبر و تحمل کی کمی ہمارے معاشرے کے اِن گھریلو مسائل کی ایک بہت ہم جڑ ہے۔

یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیں اپنے اندر  صبر  اور برداشت پیدا کرنی چاہیے۔ تاکہ ہم دوسروں کو ہنستا بستا دیکھ کر حسد میں نہ مبتلا ہوجائیں,  ہمارا ذہن دوسروں کو نقصان  پہنچنے کے لیے سازشیں بُننے میں  نہ مصروف رہے۔

زہرہ کی جان لے کر ان ماں بیٹی اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا سوائے شرمندگی کے اور رسوائی کے۔ ان کے اس گھناؤنے عمل نے زہرہ کے ساتھ ساتھ اِن کی اپنی بھی زندگی تباہ کی۔



اس خطّے میں ذہنی مسائل کتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی وجوہات پر ایک دوسرے کو جانی  نقصان پہنچانا تک گوارہ کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ماہرِ نفسیات اور علماء کرام  کی اس جانب توجہ کی بے حد ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر  ذہنی مسائل کے حل کے لیے گاؤں, دیہات اور بڑے , چھوٹے شہروں میں میڈیکل کیمپس کا انعقاد کرنا بہت ضروری ہوچکا ہے۔ 

اسکولز ,  مدارس , کالجز, دفاتر میں بھی  ذہنی مسائل اور اِن مسائل کے حل پر بات  چیت ہونی چاہیے۔ 

اپنے معاشرے کو سدھارنے کے لیے اور اپنی موجودہ اور  نئ  نسل کو بہترین طریقے سے پروان چڑھانے کے لیے  ہمیں صرف حکومت پر انصار کرنے کے بجائے خود بھی عملی اقدام اٹھانے ہوں گے۔ 


معصوم ذہنوں کو سازشوں اور چالاکیوں کے نقصانات سمجھانے ہوں گے تاکہ اُن کے ذہن ایسی عادتوں کا شکار ہی نہ ہوں ۔ اپنی منفی سوچ  پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے ,  اپنی  شخصیت  کو منفی اثرات  سے کیسے بچا سکتے ہیں ہمارے بچوں کو اس  بارے میں بھی آگاہی  اور باقاعدہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔



ہمیں جسمانی صحت کے ساتھ  ساتھ ذہنی طور پر بھی صحت مند معاشرے کی ضرورت ہے۔ 

اِس بارے میں زرا نہیں پورا سوچئے گا۔


شکریہ۔






Comments

Popular posts from this blog

الوداع سال ٢٠٢٢

یہ سال بھی آخر بیت گیا سال پہ سال گزر رہے ہیں۔ زندگی جیسے اپنی ڈگر پر بھاگ رہی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ایک کے بعد ایک سال آتا اور جاتا ہے۔  پر بھی نہ جانے کیوں ہر گزرتا سال اُداس سا کر جاتا ہے۔ ٢٠٢٢ دیکھا جاٸے تو کورونا کا زور ٹوٹتا دکھاٸی دیا اور پھر الحَمْدُ ِلله پاکستان نے  اِس بیماری سے مکمل نجات حاصل کرلی۔ ٢٠٢٢ کے شروع ہوتے ہی آٹھ جنوری کو سانحہ مری نے عوام کو دکھ و غم میں مبتلا کردیا تھا۔ جس حادثے کے نتیجے میں متعدد فیملیز برف باری کے طوفان میں پھنس کر بند گاڑیوں میں موت کی وادی میں چلی گٸیں۔  ملک کے مختلف علاقوں میں  لینڈ سلاٸڈنگ  کے حادثات۔  تمام سال مختلف شہروں میں کٸ خود کش دھماکے ریکارڈ کیے گۓ جیسے کہ کوٸٹہ پولیس موباٸل اٹیک سبی اٹیک پشاور مسجد حملہ جامعہ کراچی خودکش دھماکہ کراچی صدر مارکیٹ بم دھماکہ سوات ڈسٹرک خودکش دھماکہ لکی مروت اٹیک نومبر کے مہینے میں کوٸٹہ میں ایک اور دھماکہ میران شاہ خود کش دھماکہ بنو سی ٹی ڈی اٹیک اسلام آباد I-10 ایریا اٹیک۔  صوبہ سندھ میں جانوروں میں پھیلتی بیماری   Lumpy skin desease کا معامل...

یوم الفرقان

سترہ رمضان المبارک ٣١٣ کا لشکر  !!!روزے داروں بہت سے مشقت بھرے کام ہم روزے کے دوران ترک کردیتے ہیں کہ روزہ سے ہیں لہذا بعد میں کرلیں گے۔  اور سوچیں ان ٣١٣ کے ایمان کے بارے میں کہ نیا نیا اسلام قبول کیا ہے لیکن دِل ایمان افروز اور قدم حق پر ڈٹے ہوۓ مضان المبارک کا مہینہ ہے روزے سے ہیں , جزبہِ ایمان سے دِل لبریز ہو تو قدم حق سے پیچھے نہیں ہٹتے۔  اللہ اور  رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاۓ اور اپنی جانیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر پیش کردیں۔ حق و باطل کو پرکھنا ہے تو واقعہِ بدر پر نظر ڈالیۓ ۔ آپ حق پر ہو تو ہار آپ کا مقدر نہیں بن سکتی۔ وہ وقت تھا جب تعداد کم تھی ساز و سامان بھی مختصر تھا اور مہربان آقاصلی اللہ علیہ وسلم ہیں  کہ اپنے اصحاب سے پوچھ رہیں ہیں کہ ان حالات میں آنے والے لشکر سے جنگ کرنا چاہتے ہو یاں نہیں؟ پھر  غلام ؓ بھی تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے ان کی شایانِ شان  عطا کیے تھے کہ جو کہتے ہیں کہ ”آپ کو جو اللہ کا حکم ملا ہے آپ وہ ہی کیجیے ہم  ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں  بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گ...

اچھرہ مارکیٹ واقعہ Ichra Market incident

ہر گزرتے دن حالات و واقعات دیکھ کر لگتا ہے کہ  ہمارے ملک کا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ جیسے یہاں ایک دوسرے پر جینا ہم تنگ سا کرتے جا رہے ہیں۔  جیسے ایک دوسرے کو اپنی سوچ و فکر کے لحاظ سے قید کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال درست میرا طریقہ صحیح میری ہی فکر برحق  اِس سب میں شخصی آزادی کہاں گٸ؟ کل ٢٥ فروری دوپہر کے وقت لاہور اچھرہ مارکیٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے کہ بازار میں ایک خاتون  جو لباس زیب تن کی ہوٸی  تھیں اس میں عربی الفاظ کندہ تھے۔ لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر عورت پر شور مچانا شروع کردیا کہ یہ قرآنی آیات ہیں اور یہ ہمارے دین کی توہین ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ اس عورت کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنانے کے لیےایک مجمع لگ چکا ہوتا ہے۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون  عوام کے نعروں سے شدید خوف زدہ تھیں۔ گستاخ گستاخ کے نعروں سے علاقہ گونج رہا تھا۔  آناًفاناً پولیس وہاں پہنچی۔ مارکیٹ کے کچھ افراد، دکان دار  اور  مقامی مسجد کے امام صاحب نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے عورت کو عوام  سے بچانے کے لیے دکان کا شٹر گراٸے رکھا ۔ اور پولیس ...